دو بکروں کے چشم کشا حقائق


عید قربان پھر لوٹ آئی۔ ہر طرف قربانی، قربانی اور قربانی کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ معمول کی طرح اب کے بار بھی ”نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی خاک تک“ پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمان قربانی دیں گے۔ کہیں بکرے اور دنبے ذبح ہوں گے جبکہ کہیں اونٹ اور بیل تہ تیغ ہوں گے ۔ چونکہ یہ عاجز بھی خود کو عاقل وبالغ اور صاحب نصاب مسلمان سمجھتا ہے، یوں قربانی کا جانور خریدنے کی نیت سے گھر سے نکلا اور بکرا منڈی کا راستہ پکڑلیا۔

جاتے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیاہو سکتی ہے کہ خدا نے ایک مرتبہ پھر مجھے سنت ابراہیمی زندہ کرنے کاموقع فراہم کر دیاہے۔ اسی خوشی کے بدلے میں نے بکرا منڈی پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں اس عید کے موقع پرایک کی بجائے دو بکرے ذبح کرنے کا تہیہ کر لیا۔ منڈی میں مسلمانوں کے قربانی سے لبریز جذبات نے میری خوشی کو مزید مہمیز لگادی، اور مجھے خود کوکپڑوں میں سمانا بھی مشکل ہوگیا۔ بہر کیف انسانوں کے بھیڑ میں گھس کر میں نے حسب وعدہ دو بکروں کی تلاش شروع کردی۔

بکروں کی ریوڑ کے مالک سے میں نے قیمتوں کے بارے میں جاننا چاہا تو جواب ملا:جناب! بے فکر ہوجا، قیمتیں اب بھی زیادہ اوپر نہیں گئیں ہیں، محض پندرہ اور بیس ہزار کے بیچ آپ ایک اچھا خاصا بکرا لے سکتے ہیں۔ میں نے بڑی دلیری سے ریوڑ کے مالک کو بتایا کہ اس مرتبہ میں دو بکروں کی قربانی دیناچاہتا ہوں کیونکہ ایسے مواقع بہت شاذ آتے ہیں۔ مالک ریوڑ نے اس پر جزاک اللہ کہہ کر بکروں کی قیمت میں مزید رعایت دینے کا وعدہ کر لیا۔

جس ریوڑ کی صفوں میں میں اپنے لئے بکرے ڈھونڈ رہا تھا، اس سے چند قدم آگے سو، ڈیڑھ سو پر مشتمل سفیداورسیاہ بکروں کا ایک اور ریوڑ کھڑا تھا۔ اسی ریوڑ میں دو شرارتی بکروں نے مجھے دیکھ کرمیرے اوپر خوب جملے کھسنا شروع کردیئے۔ شاید ان کا خیال تھا کہ دو قربانیوں کے جنون میں مبتلا یہ گاہک ہماری شرارتی باتوں کو سن نہیں پارہا، حالانکہ میں نے اس دوران اپنا ایک کان مالک کی باتوں کے لئے وقف کیا ہوا تھا جبکہ دوسرے کان سے ان شرارتی بکروں کے تیز وتند ( مگرحقیت پر مبنی) جملے سن رہا تھا۔

سفید بکرا (کالے بکرے سے ) ؛ بھیا! ذرا اس نووارد گاہک کی طرف توجہ فرمائیں، کتنا خوش لگ رہا ہے۔

کالابکرا: ہاں میں دیکھ رہا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسا آج ہی انہیں جنت الفردوس کا پروانہ ملنے والاہے!

سفید بکرا: یارو! تم نے یقیناً سچ کہا، مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے، بہرحال آگے آپ مزید تبصرہ فرما لیجیے ․․․․

کالا بکرا: یہ ریوڑ کے مالک سے کہہ رہا ہے کہ سعادت داریں حاصل کرنے کی خاطر وہ اس عید کو ایک کی بجائے دو بکروں کی قربانی دیناچاہتا ہے۔

سفیدبکرا : کیا سعادت دارین ملنا اتنا آسان ہے کہ صرف دو بکریوں کا خون بہانے سے حاصل ہو سکتی ہے؟
کالابکرا: خاک اتنا آسان ہے، لیکن بے چارہ بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
سفیدبکرا! وہ کیسے؟

کالابکرا: بھیا! سعادت دارین صرف بکریوں، بیلوں اور دنبوں کا خون بہانے اور چمڑا ادھیڑنے سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے بے شمار دوسری قربانیاں دینا بھی ناگزیر ہوتی ہیں۔

سفیدبکرا: میں تیری بات کو سمجھ گئی کہ بندہ ایک مفت خور مسلمان ہیں اور صرف ہمارے گلے کاٹنے کے بدلے سعادتیں بٹورنے کا متمنی ہیں۔

کالا بکرا: ہاں لیکن مفت خور صرف یہی بے چارہ نہیں بلکہ یہاں آئے ہوئے سب مفت خور مسلمان ہیں، الا ماشا اللہ۔

سفید بکرا: آپ بجا فرمارہے ہو، سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی یہ عجیب وغریب ماڈل کے مسلمان لگ رہے ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ قربانی دیتے ہیں اور وہ بھی بکروں، دنبوں، بیلوں اور اونٹوں کے گلے کاٹ کاٹ کرکریڈٹ لیتے ہیں۔ میں نے آج تک ان مفت خوروں کو اپنے کرتوتوں کی قربانی دیتے نہیں دیکھا ہے۔ ان مفت خوروں نے اپنے اندر کے پالے ہوئے کتوں، سانپوں، بچھوؤں اور ڈائنا سورسوں کے گلے پر کبھی چری رکھنے کی زحمت گوارانہیں کیاہے لیکن پوری زندگی ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

کسے معلوم نہیں کہ یہ شب وروز ایک دوسرے کو باولے کتوں کی طرح کاٹتے ہیں۔ زمیں پر رینگنے والے سانپوں اوربچھووؤں نے انسانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا نقصان یہ اپنے اندر کے پالے ہوئے سانپوں اور بچھوؤں کے ذریعے لوگوں کو ڈسوا کرپہنچارہا ہے۔ ڈائنا سورس کا وجود ہزاروں برس پہلے روئے زمیں سے عنقا ہوچکاتھا لیکن ان مفت خوروں کے دلوں میں یہ عظیم الجثہ جانور آج بھی زندہ ہے کیونکہ یہ ٹنوں کے حساب سے اس جانورکوفراڈ، رشوت، چوری اور بددیانتی کاحرام مال فراہم کرتا رہا ہے۔ بے شک، یہ مفت خور صوم وصلوٰۃ کے پابند ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور حج وعمروں پر جاتے ہیں لیکن ایسی نمازوں، روزوں، حج وعمروں اور تلاوت قرآن کا آخر کیا فائدہ جوانہیں چوری، دوسروں کاحق ہڑپ کرنے، فرفرجھوٹ بولنے، دھوکہ بازیوں اور زمیں پرفساد برپاکرنے سے نہیں روکتا۔ ایک شاعر نے توبجاکہاتھا کہ

ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر

کالابکرا: آج آپ نے کیامزے کی باتیں کہی اور میرے لئے مزیدکہنے کو کچھ نہیں بچا۔ آخر میں فقط اتنا فرمائیے کہ یہ مفت خور راہ راست پر کس طرح آسکتے ہیں؟

سفید بکرا: قربانی اور صرف قربانی ہی کے ذریعے آسکتے ہیں!
کالا بکرا: ”قربانی ہی کے لئے تویہ بے چارے یہاں آئے ہوئے ہیں“ !

سفید بکرا: بھیا! میں اصل میں حقیقی قربانی کی بات کررہاہوں۔ یہ لوگ تھوک کے حساب سے ہمیں قربان کرنے کی بجائے یہ اپنے کرتوتوں اور سیہ کاریوں کو ذبح کرکرکے قربانیاں پیش کردیں ”۔

کالا بکرا:اوکے ․․․․ جزاک اللہ۔

قارئین کرام! یقین جانیے کہ سفید اور کالے بکرے کی یہ باتیں سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا اوراپنے بکروں کو گھر کی طرف ہانکتے ہوئے راستے میں مسلسل اس شعر کا ورد کر رہا تھا،

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکرے کی
دل کو لگتی ہے بات بکرے کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments