پیغمبر اور پیشوا



پیغمبر اس لیے مبعوث ہوتے ہیں تاکہ جور و جبر کے ماحول سے عوام الناس کو آزاد کروا کے انہیں اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کر سکیں۔ پیغمبر ہر انسان کو اپنے امکانات کو دریافت کرنے کے لیے نہ صرف آمادہ کرتے ہیں بلکہ انہیں وہ میدان عمل بھی تیار کر کے دیتے ہیں جہاں پر ہر انسان کو ایک ہی مقام سے زندگی کی دوڑ میں بھاگنے کا موقع ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انسان کی انسان ہونے کی حیثیت سے تکریم کی جائے۔ دولت، اقتدار اور جتھوں سے وابستگی عزت کا معیار نہ ہو۔ درجات کی بلندی کا تعلق اپنی ذات کے بند خول سے برآمدگی پر منحصر ہو۔ وہ گروہی مفادات کی نفی کرتے ہیں اور کل عالم کی فلاح کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان تمام عناصر کا قلع قمع کرتے ہیں جو انسانی سماج میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو مہمیز دیتے ہیں۔ وہ ظلم و نا انصافی کی تمام اقسام کو پہچاننے کے لئے آنکھیں عطا کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی محنت پر اپنے قصر تعمیر کرنے والے دولت مندوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

وہ ان کی آواز بنتے ہیں جنہیں نظام نے اپنے استحصالی ہتھکنڈوں سے کمزور کر دیا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عام انسان اپنے نظام اور ماحول کا اسیر ہوتا ہے۔ وہ عقیدے کی سطح پر جبریت کا شکار ہو کر اپنے لیے متبادل کی تلاش چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی جستجو اسے ایک سرنگ میں داخل کر دیتی ہے۔ اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کیسے کرے گا۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہماری محرومیاں ہمارے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہیں اور پھر ہم ہر آن ہر لحظہ ان محرومیوں کے متعلق ہی سوچتے رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں مسلسل وقت افطار کا انتظار ستاتا ہے کیونکہ ہم لذت کام و دہن سے محروم ہوتے ہیں اور اسی لیے رمضان کے با برکت ماہ میں کھانا پینا ہماری توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ پیغمبر کی ساری سعی کا منتہا یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کی جسمانی ضروریات کی تشفی کا حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے شریعت کے احکام و قوانین کی روشنی میں تسلی بخش بندوبست کر دیا جائے تاکہ لوگ جسمانی تقاضوں کی تسکین کے بعد روح کی بالیدگی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔

پیغمبر کے وصال کے بعد پیشوا ان کے انسان دوست پیغام کو بالعموم اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ پیغمبر کے لائے ہوئے پیغام کے الفاظ کی جگالی تو خوب کرتے ہیں لیکن وہ معانی جو ان الفاظ میں مضمر ہوتے ہیں، انہیں نگاہوں سے اوجھل کر دیتے ہیں۔ وہ پیغمبر کے پیروکاروں کو بتاتے ہیں کہ پیغمبر جنت ارضی تو قائم کرنے کے لیے نہیں آئے تھے وہ صرف جنت اخروی کے خواہاں تھے۔ یوں پیروکاروں کی ساری توجہ جنت اخروی کا جانب مبذول ہوجاتی ہیں۔

وہ کاروبار دنیا تو ”زمانے کی ہوا“ کے مطابق چلاتے ہیں البتہ جنت اخروی کے حصول کے لیے پیشوا کے شارٹ کٹ کلیوں پر عمل کرتے ہیں۔ دین اور دنیا کی یہ تقسیم استحصالی قوتوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیتی ہے۔ ان انسان دشمن قوتوں کو وسائل کا رخ اپنی جانب موڑنے کی طرف کھلی چھوٹ مل جاتی ہے کیونکہ مومنین اس دنیا اور دنیاوی نعمتوں کو قابل تضحیک و استہزا سمجھ کر تیاگ چکے ہوتے ہیں۔ پیغمبر موجودہ نا پسندیدہ صورتحال کا متبادل پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رات جس قدر بھی کالی ہو صبح ہو کر رہتی ہے جبکہ پیشوا انہیں استحصالی نظام کو صبرو شکر کے ساتھ تسلیم کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ پیشوا بالعموم پیغمبر کے پیغام کو آلودہ کرنے کی باعث بنتے ہیں۔ انہیں صرف پیغمبر کے پیغام کو مسخ کر کے اپنی حاکمیت قائم کرنے کا آرزو ہوتی ہے اور یہ آرزو جمہور کی توجہ کو اخروی حسنات کے حصول کی طرف تو مائل کرتی ہے لیکن زمین پر برپا فسادات کی رفو گری کے لئے کوئی تدبیر نہیں سجھاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments