مغرب کے مسلمانوں میں حلال مصنوعات کا جنون


آپ نے حلال اور حرام جانوروں اور ان کے گوشت کے استعمال کے بارے میں یقیناً سنا ہو گا۔ یعنی اگر بھیڑ بکری اور گائے کا گوشت حلال ہے تو سور کا گوشت حرام۔ لیکن آپ نے پھلوں، سبزیوں، دودھ، دہی، انڈوں اور دیگر اشیائے خوردنی کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں کم ہی سنا ہو گا۔ نہیں جناب آج کل مغرب میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس کی تفصیل ہم آپ کو آگے بتایں گے۔

سوچا کہ ملکی سیاست اور معیشت کے گمبھیر مسائل سے باہر نکل کر ذرا ان لوگوں کی سوچ و فکر، عادات و اطوار، مذہب، فرقے اورعقیدے کے متعلق بھی لکھا جائے جو ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اپنے ملک سے ہجرت کر کے مغرب خصوصاً یورپ اور شمالی امریکہ میں جا بسے ہیں۔ اور وہاں دہائیوں سے آباد ہیں۔ کئی ممالک میں تو ان تاریک وطن کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔

وجہ ہجرت کچھ بھی رہی ہو۔ چاہے اپنے ملک کے بنیادی مسائل سے پیچھا چھڑانا ہو۔ بہتر روزگار ہو۔ اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر بنانا ہو۔ یا پھر بچوں کی تعلیم اور اعلی طبی سہولیات ہوں۔ امیگریشن حاصل کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ نکل ہی آتا ہے۔

یہ تو جسمانی ہجرت کی بات ہے لوگ ایک پس ماندہ، غریب، اور ان پڑھ معاشرے اور ملک سے نکل کر ایک مہذب، ترقی یافتہ، امیر اور خوشحال ملک میں جا کر بڑی محنت اور مشکلات اٹھا کر اپنی جگہ تو بنا لیتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہاں کی جدید سہولیات سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تارکین وطن ان ممالک میں مستقل رہایش اختیار کرنے کے با وجود اس معاشرے میں رچ بس نہیں سکتے۔ کیوں آئیے ان وجوہات کا ایک جایزہ لیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ذہنی اور فکری پالیدگی کا فقدان ہے۔ لکھنا، پڑھنا، سمجھنا اور بولنا یا سوال اٹھانا اس پر ریاست، مقتدر طاقتوں، حکمرانوں، اور خود معاشرے نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ نتیجتاً تارکین وطن خصوصاً وہ جو مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر کبھی بھی ہجرت نہیں کرتے۔ یہ اپنا ذہن، اپنی معاشرت، اپنے اپنے عقیدے، فرقہ وارانہ نفرتیں اور مسائل، اپنی صدیوں پرانی اور فرسودہ روایتیں اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔

راقم شمالی امریکہ میں اپنی دس سالہ رہایش کے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ مغرب میں آنے والا ہر تارکین وطن چاہے وہ اعلی تعلیم یافتہ ہو یا معمولی نوکری پیشہ۔ خصوصاً مسلمان اور پاکستانی دہری شخصیت کا شکار رہتاہے۔ ان لوگوں کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ در پیش ہوتا ہے وہ مغرب کا آزاد خیال، کھلا، سماجی اور مذہبی پابنددیوں سے آزاد معاشرہ۔ جس سے یہ تارکین وطن ہر ممکن طور پر اپنے بچوں کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔

چھوٹے بچے جن کی عمریں پانچ سے دس سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ جب یہاں اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں دہرے معیار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھٹے ہوئے ماحول فرسودہ اور ناقص نظام تعلیم سے نکل کر جب وہ ایسے نظام تعلیم میں داخل ہوتے ہیں جہاں آزاد خیال اور جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔ جس میں جنسی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے جہاں درسی کتابوں میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ تو بچوں اور والدین دونوں کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ آیا انہیں مغرب کی جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے یا پھر کسی اسلامی اسکول میں بھرتی کروا دیا جائے۔

پاکستانی امیگرینٹ کا دوسرا بڑا مسئلہ احساس کمتری کا شکار ہونا ہے۔ یہ دوسری قومیتوں کے لوگوں سے میل جول سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا ہو سکے گوروں سے دور رہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ اور ٹیکنیکل لوگوں کو چھوڑ کر اگر کسی پاکستانی کو خوش قسمتی سے کسی کینیڈین یا امریکن کمپنی میں ملازمت کا موقع مل جائے تو وہ کسی پاکستانی کے پیٹرول پمپ یا گروسری اسٹور پر کام کرنے کو ترجیح دے گا۔ ان کے لئے زبان کا مسئلہ بھی آڑے آتا ہے۔

کینیڈا کے سب سے بڑے تجارتی شہر ٹورنٹو جہاں راقم رہایش پذیر ہے۔ 100 سے زیادہ اقوام رہتی ہیں۔ یہ ایک پرامن کوسمو پولیٹن شہر ہے۔ سب مل جل کر رہتے ہیں۔ لیکن پاکستانی اپنے رہنے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں دیگر پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہو تاکہ دوسری اقوام کے شہریوں سے زیادہ واسطہ نہ پڑسکے۔

مذہبی معاملات میں بھی انتہای تنگ نظر ہیں۔ مذہبی برتری کا جنون اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔

جہاں چار اہل سنت افراد جمع ہوں گے فوراً مسجد کی تعمیر کے لئے حکومت کو درخواست دیں گے۔ اگر اہل تشیع ہیں تو فوراً امام بارگاہ بنانے کی کوششوں میں جت جائں گے۔ ایک چھوٹے سے علاقے میں تین تین امام بارگاہیں ہوتی ہیں۔ یعنی ہر فرقے کی مذہبی رسومات پورے زور و شور سے ادا کی جاتی ہیں۔ یقیناً مذہبی آزادی ہر انسان کا حق ہے لیکن یہ خیال رہے کہ جن ممالک میں آپ ہجرت کر کے آئے ہیں وہ سیکولر معاشرے ہیں لہذا وہاں کی حکومت اور عوام ایک حد تک آپ کی مذہبی سرگرمیوں کو برداشت کر سکتی ہے۔

مغرب میں کیونکہ بڑی حد تک مذہبی آزادی ہے اس لیے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کے لیے زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔

مذہبی روا داری ہم میں نام کو نہیں ہوتی۔ کرسمس کاتہوار پوری دنیا کے تقریباً دو ارب مسیحی مناتے ہیں لیکن کیا مجال ہے کوئی پاکستانی اپنے گورے ہمسائے کو میری کرسمس کا ایک مییسج بھیج دے یا ایک معمولی سا چاکلیٹ کا پیکٹ گفٹ کر دے۔ کیونکہ اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔

اب ہم اپنے اس موضوع یعنی پاکستانیوں میں حلال اشیا کی خریداری اور اس کے استعمال کی طرف آتے ہیں۔ 1980 کی دہائی تک امریکہ اور کینیڈا میں حلال اشیا کا کوئی تصور نہیں تھا۔ مسلمان کیونکہ گوشت خور ہیں اس لئے حلال گوشت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ یہودی بھی حلال جانور کا گوشت استعمال کرتے ہیں جسے وہ کوشر میل کہتے ہیں۔ اکژ عربی مسلمان بھیڑ کا گوشت استعمال کر لیتے تھے۔ 1990 کی دہائی میں جب کیینڈا نے پوری دنیا کے لئے امیگریشن کھولی تو عربی، سومالی، افغانی اور پاکستانی مسلمانوں کی بھرمار ہو گئی۔

حلال گوشت کی طلب دیکھتے ہوئے لبنانی اور افغانی مسلمانوں نے اکا دکا حلال گوشت کی دکانیں کھولنی شروع کر دیں۔ جو بڑھتے بڑھتے باقاعدہ حلال کاروبار کی شکل اختیار کرتا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ آپ ٹورنٹو کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیے آپ کو حلال گوشت کی دکانیں جا بجا کھلی ہوئی نظر آئیں گی۔ منافع بخش کاروبار دیکھتے ہوئے پاکستانی بھی حلال گوشت اور دیگر حلال اشیا کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔

اس وقت حلال فوڈز اور ریسٹورنٹس کا بیشتر کاروبار افغانیوں اور پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے۔ کراچی اور لاہور کے بیشتر بڑے اور مشہور ریسٹورنٹس کی برانچیں امریکہ اور کینیڈا میں کھلی ہوئی ہیں۔ حلال کاروبار کو بڑھتے دیکھ کر گوروں کے بڑے بڑے سپر اسٹور میں حلال گوشت کے سیکشنز کھل گئے ہیں۔ حلال مصنوعات کا کاروبار اس وقت امریکہ اور کینیڈا میں عروج پر ہے۔ حلال گوشت کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن کبھی آپ نے سنا ہو کہ دودہ، دہی، انڈوں، پھلوں اور سبزیوں، ٹوتھ پیسٹ، صابن، اچار اور چٹنیوں میں بھی حرام اجزا شامل کیے جایں۔

جی ہاں کچھ مذہبی جنونی یہاں بھی ان اشیائے خورد و نوش میں حرام اور حلال تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ دودھ، دہی، انڈے اور مکھن کیسے غیر حلال ہو سکتے ہیں۔ یعنی مسلمان تارکین وطن بالخصوص پاکستانیوں کا ذہن، فکر اور عقیدہ مذہبی معاملات میں اس قدر پختہ ہو چکا ہے کہ اب وہ انڈوں اور مکھن میں بھی اسلام کو تلاش کر لیتے ہیں۔ ایسے مذہبی شدت پسند لوگ کسی مہذب۔ آزاد خیال اور ترقی یافتہ معاشرے میں رہنے کے لایق نہیں ہو سکتے۔

ضروری نہیں ہے کہ آپ مغربی اقوام کی خرافات جو ان کا طرز زندگی ہے کو اختیار کریں۔ لیکن کم از کم اپنی روایات، رہن سہن، کھانا پینا، عادات و اطوار، مذہبی رسومات کو تو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں۔ جو جیز آپ کے معیار پر پوری نہیں اترتی ہے اس کو رد کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خدارا مذہب کو پھلوں اور سبزیوں میں تلاش مت کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments