پاکستان میں آلائشیں درآمد کر کے کھانے کی اشیا بنانے کا منصوبہ


ذبیحہ

پاکستان میں حلال جانوروں کے گوشت کا استعمال ایک عام سی بات ہے لیکن ذبح کیے جانے والے جانوروں کی آلائشوں کا بہت کم استعمال نظر آتا ہے۔ ان میں جانوروں کی انتڑیاں اور اوجھڑیاں وغیرہ شامل ہیں جو زیادہ تر کوڑے کچرے کے ڈھیروں پر نظر آتی ہیں۔

تاہم ان آلائشوں سے جو کھانے کی اشیا بنا کر برآمد کی جاتی ہیں اس کے بارے میں کم ہی افراد کو معلوم ہے۔ پاکستان میں قائم ایک کمپنی نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے جانوروں کی آلائشیں درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ انھیں پراسیس کر کے ان سے تیار کیے جانے والے فوڈ آئٹمز کو برآمد کیا جا سکے۔

پاکستان سے جانوروں کے گوشت کی بیرون ملک برآمد اور غیر ملک سے اندرون ملک گوشت کی درآمد کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔

تاہم اب پاکستان میں کام کرنے والی کسی کمپنی کی جانب سے جانوروں کی آلائشیں درآمد کرکے انھیں پراسیس کرنے کے لیے فیکٹری لگانے کا منصوبہ ایک منفرد کام ہے۔

دی آرگینک میٹ نامی اس کمپنی کا دو فیکٹریاں لگانے کا منصوبہ ہے جس میں سے ایک فیکٹری میں بیرون ملک سے جانوروں کی آلائشوں کو درآمد کر کے انھیں پراسیس کر کے برآمد کیا جائے گا تو دوسری فیکٹری میں مقامی طور پر جانوروں کی آلائشوں کو اکٹھا کر کے انھیں برآمدی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان میں یہ کمپنی محدود پیمانے پر آلائشوں کو پراسیس کر کے انھیں بر آمد کرنے کا کاروبار پہلے سے کر رہی ہے تاہم آلائشیں درآمد کرکے انھیں پراسیس کر کے برآمد کرنے کا کام یہ کمپنی اب شروع کرنے جا رہی ہے۔

جانوروں کے جسم کا کوئی حصہ بے مقصد نہیں ہے

دی آرگینک میٹ کمپنی لمیٹڈ کا گوشت اور آلائشیں پراسیس کرنے کا ایک پلانٹ کراچی سے باہر لگا ہوا ہے۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیصل حسین نے آلائشیں حاصل کرنے، انھیں پراسیس کرنے اور ان کی برآمد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جانوروں کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس کا استعمال کھانے اور دوسرے مقاصد کے لیے نہ کیا جا سکے۔

جانور کی گردن تک کی کھال چمڑے کی منصوعات جیسے گارمنٹس، جوتے اور پرس وغیرہ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ منھ کی کھال کی افریقہ میں بہت بڑی مارکیٹ ہے جو اسے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جانور کی ناک کان تک استعمال ہوتے ہیں۔

اسے سُکھا کر اس سے پاؤڈر بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح جانور کی زبان کو بھی بہترین کھانے کے طور پر دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اسی طرح جانوروں کے جسم سے نکلنے والی انتڑیاں، اوجھڑی اور پتو جھڑی بھی ان میں شامل ہیں، جنھیں ہمارے ہاں اکثر پھینک دیا جاتا ہے لیکن دنیا میں ان سے خوراک تیار کی جاتی ہے۔

مردہ جانور

Science Photo Library

آلائشوں کی کتنی قسمیں ہیں؟

جانوروں میں دو قسموں کی آلائشیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک سرخ آلائشیں ہوتی ہیں اور دوسری سفید آلائشیں کہلاتی ہیں۔

سرخ آلائشوں میں سری پائے، گردے، کلیجی اور پھیپھڑے وغیرہ شامل ہیں تو سفید آلائشوں کا تعلق معدے سے ہوتا ہے جن میں انتڑیاں، اوجھڑی اور پتو جھڑی شامل ہیں۔

فیصل نے بتایا کہ پاکستان میں سرخ آلائشوں یعنی سری پائے، گردے، دل اور کلیجی کا استعمال عام طور پر نظر آتا ہے اور وہ ہمارے کھانوں کا حصہ ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں ملک میں سفید آلائشوں کا نہ تو استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ ہمارے کھانے کا حصہ ہیں۔ ہمارے ملک میں آنتوں سے ساسیج اور اوجھڑی سے سُوپ بنانے کا رواج نہیں ہے لیکن دنیا میں یہ چیزیں کھانے کا حصہ ہیں اور اس کی عالمی سطح پر طلب بھی ہے۔

آلائشوں سے فوڈ آئٹمز بنانے کا کاروبار

دنیا میں آلائشوں کو پراسیس کر کے ان سے فوڈ آئٹمز بنانے کے کاروبار کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں یہ کام ہوتا رہا ہے۔

آلائشوں سے بنے فوڈ آئٹمز کی عالمی تجارت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں اس کی تجارت کا حجم ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں امریکہ سب سے زیادہ اس قسم کے فوڈ آئٹمز برآمد کرتا ہے اور چین ان آئٹمز کو درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

فیصل نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے ملک شام میں آلائشوں کو پراسیس کرنے کی صنعت بہت مضبوط رہی ہے جو مختلف عرب ممالک سے آلائشیں اکٹھی کر کے ان سے فوڈ آئٹمز تیار کر کے دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی برآمد کرتا رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ فار ایسٹ یعنی مشرق بعید کے ملکوں میں آلائشوں سے تیار ہونے والی خوراک کی بہت زیادہ طلب ہے اور اسی طلب کو دیکھ کر انھوں نے اس سلسلے میں اس منصوبے پر کام شروع کیا ہے۔

آلائشیں کیوں درآمد کی جائیں گی؟

فیصل حسین نے بتایا کہ ان کا خاندان اسی برسوں سے جانوروں کے گوشت اور آلائشوں کی پراسیسنگ کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ان کا آبائی پیشہ ہے تو ان کی لیبر کا کام بھی نسلوں سے آلائشیں صاف کرنا ہے۔ آلائشیں جمع کر کے اور ان میں ویلیو ایڈیشن کر کے اسے بر آمد کرتے چلے آئے ہیں۔

آلائشیں ایک ایسی چیز ہے جو پاکستان کے لیے کچرا ہے تاہم دنیا میں یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔ فیصل نے بتایا کہ ان کے موجودہ پلانٹ میں روزانہ ڈھائی سو جانور ذبح ہوتے ہیں اور اس کے گوشت اور آلائشوں کو پراسیس کیا جاتا ہے۔

یہ پلانٹ کراچی سے باہر ہے جہاں کراچی سے آلائشیں لا کر پراسیس کرنا مشکل ہے کیونکہ آلائشیں بہت جلد خراب ہو جاتی ہیں۔ اس لیے انھیں جلد سے جلد اکٹھا کر کے پراسیس کرنے کے لیے ان کی کمپنی کراچی کے علاقے کورنگی میں فیکٹری لگا رہی ہے تاکہ آلائشوں کو جمع کر کے کم سے کم وقت میں اس فیکٹری میں پہنچا کر ان کی پراسیسنگ کی جا سکے۔

انھوں نے بتایا کہ آلائشوں کو درآمد کر کے ان کی پراسیسنگ کے لیے ان کی کمپنی ایکسپورٹ پراسیسنگ زون میں ایک فیکٹری لگا رہی ہے تاکہ وہاں ان سے ایسے فوڈ آئٹمز تیار کیے جا سکیں جو عالمی معیار کے مطابق ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ آلائشیں یورپ سے منگوانے کی وجہ وہاں کے جانوروں کا بڑا سائز ہے۔

پاکستان میں جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں وہ سائز میں یورپین جانوروں سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی آلائشیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں۔ ‘ہمارے ہاں تین سے چار سو کلو کے جانور کو بڑے سائز کا جانور سمجھتے ہیں لیکن یورپ میں تو جانور کا سائز ہی سات سو کلو سے شروع ہوتا ہے۔

ان کی اوجھڑیاں اور پتوجھڑیاں بھی اسی سائز کی نکلتی ہیں جو اے کیٹیگری کی ہوتی ہیں اور ان سے بنے فوڈ آئٹمز کی دنیا میں بہت زیادہ طلب ہے۔’ فیصل نے بتایا کہ ان کی کمپنی ان آلائشوں کو جن میں پتوجھڑی شامل ہے انھیں پراسیس کرے گی اور اس سے تیار کردہ فوڈ آئٹمز برآمد کر دے گی۔

خطے میں جانور چھوٹے ہوتے ہیں

یورپ کے مقابلے میں جونبی ایشیائي خطے میں جانور چھوٹے ہوتے ہیں

مقامی آلائشیں کیوں زیادہ سود مند نہیں

پاکستان میں ذبح کیے جانے والے جانوروں اور ان کی آلائشوں کو پھینک دینے کے بارے میں فیصل نے کہا کہ آلائشوں کو اگر نہ سنبھالا جائے تو وہ تھوڑے وقت میں خراب ہو جاتی ہیں۔ اگر آلائشوں کو فوراً سنبھال لیا جائے اور اسے مناسب طریقے سے محفوظ کر لیا جائے تو یہ اے کلاس آلائشیں ہوتی ہیں جن سے بننے والی خوراک بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے اور اس کی دنیا بھر میں طلب ہے۔

تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا ہے اور آلائشوں کو محفوظ بنانے میں اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ وہ ’بی کلاس‘ آلائشیں بن جاتی ہیں۔

انھوں نے عید قربان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا میں واحد مسلم ملک ہے جہاں جانوروں کو گھروں اور گلی محلوں میں لاکر ذبح کیا جاتا ہے۔ قربانی کے وقت آلائشوں کو سنبھالنے کا کلچر ہمارے ہاں نہیں ہے اس لیے وہ اکثر پھینک دی جاتی ہیں یا خراب ہو جاتی ہیں یا پراسیسنگ تک پہنچنے تک ’بی کلاس‘ کی بن چکی ہوتی ہیں۔

فیصل نے کہا کہ جانور کے ذبح ہونے کے بعد آلائش میں چھ سات گھنٹے تک حرارت رہتی ہے اور اس کے دوران ہی اسے دھو کر صاف کر کے چار ڈگری درجہ حرارت سے کم پر رکھا جائے تو یہ اے کلاس آلائش ہو گی اور اس سے بننے والی غذا بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp