پانچ اگست۔ ۔ ۔ یوم شرمندگی


آپ جانتے ہیں کہ پچھلے سال 5 اگست کو کیا ہوا تھا۔ اس دن بھارت نے اپنے آئین سے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت قرار دینے والے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو منسوخ کر دیا۔ اور مقبوضہ کشمیر کے ریاست کے درجے ختم کر کے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا اور دونوں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے تحت چلنے والے علاقے بنا دیے۔ پاکستان میں بڑا غصہ پایا گیا۔ اگلے دن ہم نے اپنے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا اور قرارداد منظور کی۔

اب ایک سال اس واقعے کو ہونے والا ہے۔ ریاست پاکستان نے اس کشمیر کے لئے کیا کیا جسے وہ اپنی شہ رگ قرار دیتی ہے؟ وزیر اعظم کی تقریر کے بعد جب قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بھارتی اقدام غیر علانیہ جنگ کے مترادف ہے تو وزیر اعظم نے کہا کہ میں حملہ کر دوں؟ 73 سال میں کشمیر پر 3 جنگیں لڑ کر بھی کچھ حاصل نہیں ہوا اور نا آج کل کے جمہوری ممالک میں تنازعات جنگ سے حل ہوتے ہیں۔ مذاکرات ہی واحد حل ہے مگر جو حکومت دعوی کرتی ہے کہ ہم نے ایک موثر سفارتی جنگ لڑی ہے۔ دراصل یہ ایک سراب ہے۔ یہ سچ بات ہے کہ 1971 کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر ایک بند دروازہ اجلاس بلایا مگر اس میٹنگ میں کیا بات ہوئی آج تک پتا نا چل سکا۔ ہم نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے 30 اگست بروز جمعہ آدھا گھنٹہ بھی کھڑے رہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھارت کے خلاف قرارداد لانے کے لئے 58 ممالک کی حمایت حاصل ہے مگر جب قرارداد جمع کرانے کی تاریخ گزر گئی تو ہمیں جو 16 ارکان کی حمایت حاصل کرنا تھی وہ بھی نا مل سکی حالانکہ 10 اسلامی ممالک بھی شامل تھے اس کونسل میں۔ اور جب جاوید چوہدری نے وزیر خارجہ سے دوران انٹرویو ان کا ٹویٹ بھی دکھا دیا تو وزیر خارجہ غصہ کر گئے تھے۔

وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں جو تقریر کی وہ ایک اچھی تقریر تھی مگر وہ تقریر بھی عالمی برادری کو ہلا نا سکی۔ او آئی سی کو ہی دیکھ لیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تو بھارت کے اس اقدام کو صحیح قرار دیا تھا اور جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ اسلام آباد آئے تو اسلام آباد کو واضح پیغام دیا کہ کشمیر امت کا مسئلہ نہیں ہے۔ ترکی اور ملائشیا نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کا اپنی تقاریر کا ذکر کیا مگر اس کا صلہ جو ہم نے سعودی عرب کی دھمکی کے بعد کوالا لامپور سمٹ سے عین وقت پر دستبرداری اختیار کر کے دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے اس اقدام سے شملہ معاہدہ ختم ہو چکا مگر ہم آج تک شملہ معاہدے سے دستبرداری کا اعلان نا کر سکے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹ ضرور شائع کی مگر حقیقی طور پر ہم دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ ہی پیش نا کر سکے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن 193 میں سے 184 ممالک کی حمایت سے بنا ہے۔

اب ہم نے 5 اگست کو یوم استحصال منانے کا اعلان کیا اور کشمیر ہائی وے اسلام آباد کا نام سرینگر ہائی وے رکھ دیا اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی اور ریلیاں نکالی جائیں گی اور تقاریر کی جائیں گی۔ کیا اس اقدام سے مقبوضہ کشمیر کے کشمیری خوش ہوں گے ؟ یہ کشمیریوں کی قربانیوں کا بھونڈا مذاق اڑایا گیا ہے۔ نغمے ریلیز کر کے شاید بھارتی فوجی اب کشمیریوں کی نسل کشی روک دیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر اب متنازعہ علاقہ نہیں رہا۔ دنیا اسے بھارت کا علاقہ تسلیم کر چکی ہے اور بھارت اب وہاں کی آبادی کا تناسب بدل رہی ہے۔ بھارتی شہریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر کے وہاں اسرائیل کی طرح آبادی کا تناسب بدل رہا ہے۔ تین سال کے بچے اپنے نانا کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ وہ محصور رہیں گے اور ہمارے وزراء لال قلعہ دہلی پر پاکستانی جھنڈا لہرا کر قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے بھگاتے رہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ 5 اگست 2019 بھی ہمارے لئے یوم شرمندگی ہے اور جو کام 72 سال میں نا کر سکا وہ کر گزرا اس لئے کیونکہ ہمارے بار بار مذاکرات کے لئے خطوط نے ہمیں کمزور ثابت کیا اور اس نے یہ قدم اٹھایا اور اس 5 اگست کو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی کی تعمیر کا سنگ بنیاد بھارتی وزیر اعظم کریں گے اور ہم شدید مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments