پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں کیا ہے؟


کشمیر

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے منگل کو پاکستان کے ‘نئے سیاسی نقشے’ کی باقاعدہ رونمائی کی ہے جس میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

پاکستان کی طرف سے یہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب انڈیا کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے کا ایک سال ایک روز بعد مکمل ہو رہا ہے۔ اس موقع پر انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے رونمائی کے موقع ہر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد اس نئے نقشے کو پاکستان کے سرکاری نقشے کی حیثیت حاصل ہو گئی اور یہ سکولوں اور کالجوں میں استعمال ہو گا۔’

پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی بیان میں کہا گیا کہ ‘اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کی کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین االاقوامی قبولیت۔’

اسی بارے میں

پاکستان نے انڈیا کے ’غلط‘ نقشے مسترد کر دیے

‘آدمی بنو، نقشے بازی نہ کرو’

کشمیر: پاکستان اور انڈیا اپنے اپنے بیانیے کے اسیر

کشمیر پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا ہوا؟

نئے نقشے میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے اس پر لکھا گیا ہے ‘انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں اور کشمیر’ جبکہ ساتھ ہی سرخ سیاہی میں درج کیا گیا ہے کہ ‘متنازع علاقہ، حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے۔’

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھا ہے اور یہ اس جانب پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تنازع کا واحد حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد ہے۔

‘پاکستان طاقت کے استعمال سے مسائل کے حل پر یقین نہیں رکھتا، ہم سیاسی جدوجہد کریں گے۔ ہم اقوامِ متحدہ کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے کہ آپ نے کشمیر کے لوگوں سے ایک وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔’

نئے سیاسی نقشے میں نیا کیا دکھایا گیا ہے؟

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے نئے سیاسی نقشے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو پاکستان کے نقشے کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نقشے سے ‘یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی ہی میں ممکن ہے اور دوسرا یہ کہ سیاچن ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔’

ان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کی جو تصویر دکھائی گئی اس میں سر کریک اور انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ اور مناوادر کو بھی دکھایا گیا ہے۔

سر کریک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان نے انڈیا کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ مغربی حصے کی جانب بڑھ رہا ہے، ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہماری سرحد مشرق کی طرف ہے۔’

کشمیر

انڈیا کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کیے جانے کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے

انڈیا کا ردِ عمل کیا ہے؟

پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘پاکستان کا طرف سے انڈیا کی ریاستوں گجرات اور اس کے یونین علاقوں کشمیر اور لداخ ہر ناقابلِ مدافعت حق ظاہر کرنا سیاسی طور پر ایک بے معنی مشق ہے۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے جاری کیے جانے والا ‘نام نہاد نیا سیاسی نقشہ دیکھا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین االاقوامی معتبریت ہے۔’

‘درحقیقت یہ نئی کوشش صرف سرحد پار دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے علاقائی اضافے کے جنون کی حقیقت کو تقویت دیتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp