توہین مذہب کے ملزم کا ماورائے عدالت قتل: مغالطوں کا جائزہ


اک رسم بد چل نکلی ہے، ایسی کہ معقول بات لکھنے اور کہنے والے پر الٹا ”الزام“ نہ صرف تھوپ دیا جاتا ہے بلکہ چند خدائی فوجدار خود ساختہ ”ایمانومیٹر“ تھامے معتدل بات لکھنے اور کہنے والے کے ”ایمان“ کی پیمائش کرنے دوڑے چلے آتے ہیں۔ جذباتیت کی لہروں پر تیرتے چند سرپھرے ایسا کریں تب تو بات کچھ پلے بھی پڑتی ہے مگر مقام حیرت کہ اہل علم سمجھے جانے والے حضرات بھی بجائے معقول و معتدل بات کہنے کے عوامی رائے کی بہتی رو میں بہہ کر مقبول عام اور جذباتیت پر مبنی موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر مگر چونکہ چنانچہ کے خوبصورت غلاف میں ماورائے عدالت قتل کا جواز ڈھونڈنا انتشار کی بھڑکتی آگ اور انتقام کے جذبے کو ایندھن فراہم کرنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟

یہ بات پیش نظر رہے کہ مذہب کے باب میں بر صغیر کے مسلم باسی کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوئے ہیں۔ بالخصوص توہین مذہب کے باب میں۔ مسلم سماج کی اسی حساسیت کے پیش نظر تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے آئین میں چند ایسے قوانین متعارف کرائے گئے جن کا مقصد توہین مذہب ایسے اقدامات کی روک تھام اور سدباب تھا۔ ان قوانین کے مختلف مسلم فرقوں کی باہمی رقابت اور چپقلش میں غلط استعمال سے قطع نظر اب تک توہین مذہب کے کئی ملزمان نہ صرف مکمل عدالتی ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے پر سزا پا چکے ہیں بلکہ یہ قوانین علانیہ طور پر مذہب اسلام کی توہین و تضحیک کی راہ میں اہم رکاوٹ بھی ہیں۔

المیہ مگر یہ ہے کہ ایسے قوانین کی موجودگی میں چند سر پھرے ملکی قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے خود کو منصف کے منصب پر فائز کر کے توہین کے مبینہ ملزم پر ”حد“ جاری کرتے ہوئے آن کی آن میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل کے بعد ”قاتل“ فخر سے پھولے نہیں سماتا کہ توہین کا مرتکب ”انجام“ کو پہنچا۔

ماورائے عدالت قتل کے جواز و عدم جواز کی یہ بحث ان دنوں عروج پر ہے۔ ہوا یوں کہ چند دن قبل پشاور کی ضلعی عدالت میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے ملزم خالد، جو امریکی شہریت کا حامل تھا، سے متعلق عدالتی کارروائی جاری تھی کہ یک لخت فیصل (ابتدائی دنوں جس کا خالد نام سامنے آیا تھا) نامی نوجوان نے مبینہ ملزم کو بھری عدالت میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ موقع پر موجود پولیس نے قاتل فیصل کو گرفتار کر کے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا۔ گرفتاری کے دوران قاتل فیصل یہ کہتا پایا گیا کہ : ”گستاخ جہنم واصل ہوا“۔ یاد رہے کہ مقتول ملزم خالد پر سنہ دو ہزار اٹھارہ میں توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوا اور وہ دو برس سے جیل میں تھا۔

پشاور میں مبینہ توہین کے الزام پر ہونے والا ماورائے عدالت قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی چند ایسے واقعات ہوئے ہیں جب حفاظت پر مامور ”ممتاز“ کسی ”حنیف“ کے جوشیلے وعظ سے متاثر ہو کر نعرہ تکبیر کی گونج میں، گستاخ گستاخ کہتا گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو بھون ڈالتا ہے اور کبھی باچا خان یونیورسٹی کے ”غازیان ملت“ کا ”ہجوم“ مبینہ گستاخی کا الزام لگا کر ”مشال“ کو بد ترین جسمانی تشدد کر کے مار ڈالتا ہے۔

کبھی چنیوٹ کا اکرام اللہ ماچھی ”غیرت ایمانی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبلیغ دین کی نسبت سے دنیا بھر میں مشہور تبلیغی جماعت کے فرد پر مبینہ گستاخی کا الزام لگا کر اسے کلہاڑے کے وار سے چیر ڈالتا ہے اور کبھی بہاولپور کا طالب علم ”خطیب“ کسی ”خادم“ کی ”خطابت“ سے متاثر ہو کر مبینہ گستاخی کا الزام دھرتے ہوئے اپنے استاد پروفیسر حمید کو چھری کے پے در پے وار کر کے مار ڈالتا ہے۔

مبینہ گستاخی کا الزام لگا کر ماورائے عدالت قتل ایسے واقعات پر پاکستانی سماج دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک طبقہ جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے، اس کا ماننا ہے کہ: ”ماورائے عدالت قتل جرم ہے خواہ اس کا ارتکاب توہین مذہب کے نام پر کیا جائے یا قومی مفاد کے عنوان کے تحت“۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیسیوں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں مسلکی چپقلش کی بنیاد پر مخالف فرقے کے فرد پر توہین مذہب کے مقدمات درج ہوئے۔ اس بنیاد پر فرد واحد کو فیصلے کا اختیار دے دینا مسلکی و فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کو جواز فراہم کرنا ہے۔ اگر فرد یا ہجوم کے قتل کے ”اقدام“ کو ”جواز“ فراہم کیا گیا تو سماج کے جنونی افراد ہر دوسرے فرد پر گستاخی کا الزام دھر کر گردن مارنا شروع کر دیں گے۔

دوسرا طبقہ جو ماورائے عدالت قتل کا جواز یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ: ”جب قاضی فیصلے نہیں کریں گے تو پھر فیصلے غازی کیا کریں گے“ ۔

آئیے، دوسرے طبقے کے پھیلائے مغالطوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

ماورائے عدالت قتل کے حق میں ایک دلیل تو یہ دی جاتی ہے کہ ملزم توہین مذہب کا مرتکب ہوا، ملزم کی گستاخی پر جذبات سے مغلوب ہو کر مشتعل فرد نے ملزم کو قتل کر دیا۔ مشتعل فرد نے یہ سخت قدم چونکہ نیک نیتی اور بھلے جذبے کے تحت اٹھایا ہے لہذا ماورائے عدالت ایسے ”قتل“ کی نہ صرف تحسین کی جانی چاہیے بلکہ مشتعل فرد کو ”غازی“ کا لقب بھی دینا چاہیے اور اس کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی بھی نہیں ہونی چاہیے۔

اس ضمن میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ پاکستان کے آئین میں توہین مذہب کی سزا کا قانون موجود ہے۔ عدالت میں توہین ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا مقرر ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں، قانون کی موجودگی میں، عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے بھلا فرد واحد کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ خود سے منصفی کرتے ہوئے گستاخی کے مبینہ ملزم کو قتل کر ڈالے؟ دوسری بات یہ کہ کسی بھی غیر قانونی عمل پر عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے۔

عدالت متعلقہ فریقین یا گروہوں کا موقف سن کر پیش کیے گئے ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر، انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، قانون کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر فرد یا ہجوم ہی نے گستاخی کے مبینہ ملزمان کو سزائیں دینی ہیں تو پھر توہین مذہب کے قانون کو ختم کر دینا چاہیے؟ فرد یا ہجوم ہی نے اگر ”فیصلے“ کرنے ہیں تو پھر عدالتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے؟ اگر فرد یا ہجوم ماورائے عدالت قتل کی روش اپنا لے تو سماج میں سوائے افراتفری اور انتشار کے کیا رہ جائے گا؟

دوسری دلیل جو ماورائے عدالت قتل کے جواز میں پیش کی جاتی ہے یہ کہ ہمارا عدالتی نظام اپنی روایتی سستی اور کمزوری کی وجہ سے توہین مذہب کے مبینہ ملزمان کو سزا نہیں دے پاتا۔ مشتعل فرد عدالتی نظام سے ختم ہوتے اعتماد کی وجہ سے مبینہ ملزم کو خود ہی ”انصاف“ فراہم کرتے ہوئے مار ڈالتا ہے۔ ایسے قتل کا ذمہ دار عدالتی سسٹم اور ریاست ہے نہ کہ مشتعل فرد۔ اس ضمن میں چند اصولی باتیں یاد رکھیے۔ ایک یہ کہ فرد واحد کو سزا کے نفاذ کا اختیار نہیں۔

جرم کی نوعیت چاہے کیسی اور کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو شریعت اسلامیہ میں بھی اور پاکستان کے آئین میں بھی جرم پر سزا سنانے کا اختیار فقط عدالت کے پاس ہے۔ جس کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ فرد یا ہجوم کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ ملزم کو قانون کی گرفت میں دے۔ دوسری یہ کہ اگر اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر کالعدم تحریک طالبان سمیت مختلف لسانی و علاقائی کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی اس منطق کو کہ : ”پاکستان کا نظام عدل ہمیں انصاف مہیا نہیں کرتا تبھی ہم خود ہی اپنے تئیں ملزمان کو بم دھماکوں کے ذریعے یا پھر گولی کی زبان میں انصاف مہیا کرتے ہیں“ کیسے ٹھکرایا جا سکے گا؟

جیسے کالعدم تنظیموں کا ماورائے عدالت قتل جرم عظیم ہے، بھلے ان کی نیت کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اسی طرح فرد یا ہجوم کا ماورائے عدالت قتل بھی سنگین جرم ہے چاہے ان کی نیت کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ عدالتیں فیصلے نیتوں کی بنیاد پر نہیں شواہد و ثبوت کی بنا پر کرتی ہیں۔ تیسری بات کہ مان لیا توہین مذہب کے باب میں مسلم سماج حد درجہ حساس واقع ہوا ہے۔ تسلیم کہ مسلم سماج رسالت مآب محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ قلبی وابستگی رکھتا ہے تبھی پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی نوعیت کی توہین مسلمانوں سے برداشت نہیں ہوتی مگر اس سب کے باوجود بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ اور پاکستان کا قانون کسی بھی فرد یا ہجوم کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ توہین مذہب پر قانون ہاتھ میں لے کر خود ہی منصفی کرتا پھرے۔

تیسری دلیل جو ماورائے عدالت قتل کے ضمن میں دی جاتی ہے کہ توہین مذہب کے ملزمان کے کیسز برسوں چلتے رہتے ہیں۔ عدالتیں سزائیں سنانے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں۔ عدالت نظام کی نا اہلی سے شہ پا کر مشتعل فرد مبینہ گستاخ کو قانون ہاتھ میں لے کر مار ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے بھی چند باتوں پر غور کیا جانا چاہیے۔ پہلی یہ کہ اگر عدالتی انصاف میں تاخیر کو ماورائے عدالت قتل کا جواز مان لیا جائے تو کیا شادی میں تاخیر زنا کا جواز بن سکے گا؟

دوسری بات یہ کہ مجھے یہ کہنے میں ہرگز کوئی باک نہیں کہ ہمارا عدالتی نظام فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے میں کوتاہی کا مرتکب ہے۔ مگر عدالتی نظام کی کمزوری کو بنیاد بنا کر فرد یا ہجوم کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود ہی ملزمان کا قلع قمع کرنا شروع کر دے۔ البتہ اس حوالے سے حکومت پر دباؤ ڈال کر مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ توہین رسالت کے کیسز کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کرے۔ سپیشل کورٹس میں توہین رسالت ایسے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو اور جلد فیصلے سے انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

چوتھی دلیل جو ماورائے عدالت قتل کے حق میں دی جاتی ہے یہ کہ توہین رسالت کے ملزم طویل عدالتی کارروائی کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ عدالتیں یا تو ملزمان کو رہا کر دیتی ہیں یا پھر ملزمان نچلی عدالتوں سے سزا پا بھی لیں تو اپیل کر کے اعلٰی عدالتوں سے رہائی پا جاتے ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ ہمارے ہاں ایک مخصوص ذہنیت تشکیل پا چکی ہے کہ جس فرد پر ایک دفعہ توہین مذہب کا الزام لگ جائے اب عدالت پر لازم ہے کہ وہ ہماری خواہش کے مطابق ملزم کو صرف سزا ہی سنائے۔

جبکہ قانون کے باب میں فیصلے خواہشات پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں۔ عدالتیں عوامی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے واسطے قائم نہیں کی جاتیں بلکہ قوانین کے مطابق ثبوت و دلائل کی بنیاد پر انصاف فراہم کرتی ہیں۔ عدالتیں جلد بازی میں ملزم کو مجرم بنانے واسطے نہیں بلکہ معاملے کے ہر ہر پہلو پر غور کر نے کے بعد انصاف کے تقاضے پورا کر کے فیصلہ سناتی ہیں۔ رسالت مآب محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے کہ: ”قاضی ملزم چھوڑنے میں غلطی کرے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے“ ۔

شواہد و ثبوت نا کافی ہونے کی بنیاد پر اگر عدالت ملزم کو رہا کر دے یا گواہان کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر ملزم کو شک کا فائدہ ملے تو اس سے یہ دلیل اخذ کرنا کہ عدالتیں دباؤ میں آ کر ملزمان کو ریلیف مہیا کرتی ہیں، سوائے سوئے ظن کے اور کچھ نہیں۔ ایسے مغالطوں کا قانون و دلیل کی دنیا میں نہ تو کوئی وزن ہے نہ ہی اعتبار۔

حقائق کا جائزہ لینے کے بعد سوال ہے کہ آیا توہین مذہب کے باب میں فرد یا ہجوم قانون ہاتھ میں لے کر ملزم کو سزا دے سکتا؟ واضح، دو ٹوک اور اٹل جواب ہے کہ :ہرگز نہیں، جو ایسا کرے گا وہ قانون کی نظر میں مجرم ہے، ہیرو یا غازی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments