5اگست۔ رام مندر بھومی پوجن


5اگست 2019 ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اس کی انتہاء پسند حکومت نے مقبوضہ کشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا اور بھارت میں ضم کر لیا۔ اس ہولناک واقعے کو ایک برس گزر گیا اور ابتک کشمیری گھروں میں بند ہیں۔ بھارت نے مسلمانوں کے دلوں پہ چھری چلانے کی خاطر اسی تاریخ کو ایو دھیامیں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا آغاز کرنے کی خاطر رام مند ربھومی پوجن کا اہتمام کیا۔

قارئین کویاد ہوکہ 1992 ء میں انتہاء پسند ہندو جن کی قیادت ایل کے ایڈوانی، نریندر مودی مرلی منوہر جوشی اور اومابھارتی کر رہے تھے نے چارسو برس پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ راشٹر یہ سوائم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کے یہ پرچارک رام جنم بھومی تحریک کے علمبردار تھے۔

رام جنم بھومی کیا ہے؟ اس کا مطلب فرضی ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے۔ ہندوکتاب ”رامائین“ جو دیو مالائی قصوں پہ مشتمل ہے کے مطابق رام کی جائے پیدائش ایودھیامیں سرایو ندی کے کنارے پہ ہے۔ اس کی جگہ تعین نہیں لیکن کچھ ہندوؤں کا خیال ہے کہ بابری مسجد اسی جگہ تعمیر کی گئی۔ بابری مسجد 1528 ء میں مغل شہنشاہ بابر کے سپہ سالار باقی نقش بندی نے تعمیر کی تھی۔ اٹھارہویں صدی میں کچھ ہندوؤں نے دعوی کیا کہ یہ مسجدرام کی جائے پیدائش پہ تعمیر رام مندر کو ڈھا کر تعمیر کی گئی لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت نہ دے سکے۔

1611 ء میں انگریز سیاح ولیئم نیچ نے ایودھیا کا سفر کیا اور وہاں رام چند قلعے کے کھنڈرات کا ذکر کیا لیکن کسی مسجد کا تذکرہ نہیں آیا۔ 1634 ء میں تھا ٹاس ہربرٹThomas Herbert نے بھی رام چند قلعے کے کھنڈرات کا ذکر کیا۔ 1672 ء میں تاہم اسی مقام پہ ایک مسجد کے واقع ہونے کا ذکر آیا۔ 1717 ء میں مغل راجپوت نواب جئے سنگھ ددم نے اس علاقے کو خرید لیا اور اس نقشے میں ایک مسجد کی موجودگی کا تذکرہ ہے۔

عیسائی مشزی جوزف ٹیگنیتھلاءJoseph Tiegenthelar نے اس علاقے کا 1766 ء۔ 1771 ء میں دورہ کیا اور تحریر کیا کہ شہنشاہ بابر یا اور انگزیب نے رام چند قلعہ کو مسمار کر کے اس کی جگہ مسجد تعمیرکی لیکن ہندو پھر بھی اس جگہ کو مقدس سمجھ کر عبادت کے لئے آتے۔ 1810 ء میں فرانس بوکاننFrancis Buchanan نے اس جگہ کا دورہ کیا اور بتا یا کہ جس جگہ مسجد تعمیر کی گئی وہاں رام مندر واقع تھا جسے مسمار کیا گیا۔ بابری مسجد کی تاریخ اور اس کے مقام پہ آیا رام مندر تھا یا نہیں ایک سیاسی، سماجی اور تاریخی بحث بن گئی۔ 1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ہند ومسلم فسادات شروع ہو گئے جن کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید کر دیے گئے۔ حیران کن طور پر بہت سے محقیقین نے بھارت کے دوسرے حصوں کے علاوہ نیپال، پاکستان اور افغانستان میں دیگر مقامات کو رام کی جائے پیدائش کے طور پر پیش کیا ہے۔

ستم ظریفی یہ کہ دو ہندو محققین کر شنا جھا اور دھیر یندراء جھانے 2012 ء میں اپنی کتاب ”اندھیری رات“ The Dark Night میں انکشاف کیا ہے کہ 1948 ء میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد ہندو۔ مسلم فسادات کو ہوادینے کی خاطر ایک ہندو سادھو ابھی رام داس نے رات کے اندھیرے میں رام کی ایک مورتی بابری مسجد میں دفن کر دی۔ کتاب کے مصنفین نے عینی شاہدوں کے بیانات پہ مبنی یہ دعویٰ کیا ہے تاکہ اس گھناؤنی سازش کو منظر عام پہ لایا جائے۔

6دسمبر 1992 ء کو بھارت نے بابری مسجد کی شہادت کے مناظر اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات دیکھے۔ آر ایس ایس کے اس وقت کے رہنما راجوبھیا تھا۔ بھارت میں کانگریس کی حکومت تھی اور کرز سمہاراؤ وزیر اعظم تھے لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی مستحکم ہوئی اور حکومت میں آئی۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے جو نرم طبیعت کے مالک تھے۔ 2014 ء میں نریندر مودی نے حکومت میں آتے ہی مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔

سنگھ پریوار نے کے نت نئے طریقے اپنائے جن سے مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ ”گاؤ راکھشک“ یعنی گائے کی رکھوالی کے نام پر مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے یا فروخت کرنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا۔ ملک بھر میں تاریخی مسجدوں کو شہید کر کے ان کی جگہ مندر تعمیر کر نے کا پروگرام بنایا گیا۔ مسلمان شہنشاہوں کے نام پر تاریخی شہروں کے نام تبدیل کر کے ہندونام رکھے گئے۔ آر ایس ایس کے زیادہ سے زیادہ

مدر سے قائم کیے گئے تاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔ گجرات میں جو مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اسی قسم کے خونی واقعات مدھیہ پردیش، راجستھان چھتیں گڑھ، اڑیسہ اور شمال کر ناٹک میں دہرائے گئے۔

بالآخر 5 اگست 2019 ء کو اپنی قانونی اور آئنی شقوں کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا اور اسی تاریخ کو رام مندر بھومی پوجن کا اہتمام کیا گیا۔ عصر حاظر میں بھارت بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ غریب ترہوتا جا رہا ہے۔ کورونا وبامیں مدافعتی اقدامات نہ اٹھا نے پر بھارت میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ لیکن ان سب سے توجہ ہٹانے کی خاطر رام مندر کی تعمیر کے اختتام کو اتنی دھوم سے منایا گیا، مقدس دریا گنگا سے پانی لایا گیا تاکہ رام مندر کی تعمیر میں استعمال ہو۔

رام جنم بھومی پہ مندر کی تعمیر کے لئے آر ایس ایس کے کار سیوک اینٹ لے کر آئے ہیں۔ کورونا وبا کے باوجودمیلے کا سماں تھا اسی طرح جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی۔ لیکن تقریب کی تاریخ اسی دن کے لئے چنی گئی جس دن کشمیریوں کے حق پہ ڈاکہ ڈالاگیا تھا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اساء الدین اوسی نے ٹویٹ پہ پیغام دیا کہ ”ہم یہ بھول نہیں سکتے کہ 400 برس زیادہ تاریخی بابری مسجد کو ابودھیا کے مقام پہ مجرم دھڑے نے 1992 ء میں شہید کیا تھا۔

سماجی کا رکن ساکنت گوکھلے نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ کورونا وبا کے دنوں میں اس قسم کی تقریب کی اجازت نہیں دینی چاہیے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ مودی ڈٹا ہوا ہے کہ مسلمانوں کے سینے چھلنی کرے اور زخموں پہ نمک پاشی۔

ھندو اس بات کا یقین کرتے ہیں کہ الداخ میں واقع ماؤنٹ کیلاش کی چوٹی پہ ان کے مذہب کے سب سے بڑے دیوتا شیواجی زندہ ہیں اور وہاں رہتے ہیں۔ چین نے لداخ اور ماؤنٹ کیلاش پہ قبضہ کر لیا ہے لیکن نریندر مودی ”زندہ“ شیواجی کی پرواہ کیے بغیر رام بھومی پوجن میں مشغول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments