یوم استحصال کشمیر، 5 اگست


جنت نظیر وادی کشمیر گزشتہ 72 سالوں سے لہو لہان ہے، بھارتی ظلم و جبر کا شکار نہتے کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور اپنی آزادی و بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان 72 سالوں میں کشمیریوں کا مورال کمزور ہوا نہ ہی پاکستان سے محبت، حسرت آزادی کا دیپ جلائے نہتے کشمیری گزشتہ ایک سال سے تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم جبراً نظر بند ہیں، وادی کا دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔

آج 5 اگست ہے، ایک سال قبل آج ہی کے دن بھارت نے کشمیر میں آرٹیکل 35 اے اور 370 کا خاتمہ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا، ا ن دو مخصوص آرٹیکلز سے واضح تھا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، کشمیر کا خصوصی قانون ہوگا اور ان پر بھارت کا آئین لاگو نہیں ہوگا، بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے کشمیر کے لیے علیحدہ بنیادی حقوق ہیں لیکن اس کا خاتمہ کرکے بھارت نے کشمیر سے خصوصی حیثیت چھین لی، اسے دو حصوں (یونین ٹیریٹری آف کشمیر اور یونین ٹیریٹری آف لداخ) میں تقسیم کر دیا اور اس کا کنٹرول بھارت کے وفاق یعنی نئی دہلی کو دے دیا گیا۔

اس جبراً ریاستی اجارہ داری پر کشمیری ردعمل سے بچنے کے لیے بھارت نے نہتے کشمیریوں اور کشمیری قیادت کو نظربند کر دیا، ان سے تمام تر بنیادی سہولیات چھین لی تاکہ کشمیریوں کی آواز دبائی جاسکے اور بھارت کا مکرہ چہرہ دنیا کو نہ دکھائی دے کہ وہ کشمیر میں کس طرح ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے۔ آج کا دن کشمیر اور پاکستان کے لیے سیاہ ترین دن ہے، کشمیر کے لیے اس لیے کہ کشمیریوں کے حق کا مکمل قتل کیا گیا اور پاکستان کے لیے اس لیے کہ گزشتہ 72 سالوں سے پاکستان دعویٰ کرتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے آزادی کے وقت کشمیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اس لیے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت نے اپنی فوج بھیج کر جبراً کشمیر پر قبضہ کیا ہے۔

پاکستان جو کہ کشمیر کے لیے بھارت سے تین جنگیں لڑ چکا ہے اور اس کا خمیازہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھگتنا پڑا جس کا حوالہ تاریخ میں موجود ہے لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کشمیر آزاد کرانے میں ناکام رہا ہے، اس کی وجہ اندرونی انتشار اور سیاسی و عسکری قیادت میں اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیر ایشو پاکستان میں سیاست کی نظر ہو گیا ہے، تمام سیاسی جماعتیں و عسکری قیادت کشمیر پر یک زباں ہوکر لبیک تو کہتی ہیں لیکن عملاً اس پر کوئی نتیجہ خیز فیصلہ نہیں کر پاتیں۔

کشمیر کاز اور کشمیر کمیٹی سیاسی عیاشیوں اور مفاہمتوں کی نذر ہو چکا ہے، عسکری و سیاسی قیادت لفظی بیان بازی جلسے جلوسوں نعروں وعدوں اور دعوؤں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ کشمیر پر کمزور بیانیے اور کمزور حکمت عملی پر کوئی فرد واحد نہیں بلکہ تمام سیاسی و عسکری قیادت ذمہ دار ہیں جو کشمیر پر صرف سیاست کر رہے ہیں، قوم اور کشمیریوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور کشمیریوں سے صرف ہمدردی کر رہے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

اب جب کہ بھارت کشمیر پر اپنی مکمل اجارہ داری تھوپ چکا ہے اور کشمیریوں کا استحصال کرچکا ہے، ایسے میں حکومت پاکستان نے کشمیریوں کے استحصال پر ایک سال مکمل ہونے پر آج یوم استحصال منانے اور کشمیر یوں سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا ہے، سرکاری سطح پر یوم استحصال کے لیے تیاریاں کی گئی ہیں، کچھ رروز قبل پاک فوج کے شعبہ اطلاعات نے یوم استحصال کی مناسبت سے ہمدردانہ نغمہ بھی جاری کیا، دوسری طرف کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کرکے اسے سری نگر ہائی وے کا نام دے دیا گیا جبکہ گزشتہ روز حکومت پاکستان نے پاکستان کا نیا جیو پولیٹیکل نقشہ بھی جاری کر دیا جس میں مقبوضہ کشمیر کو سرکاری طور پر پاکستان کا حصہ دیکھایا گیا ہے جو کہ جلد اقوام متحدہ میں بھی رجسٹرڈ کرایا جائے گا، ملک و قوم ہر بار کی طرح آج بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، ممکن ہے کہ وزیراعظم کوئی تقریر یا خطاب بھی کریں یا پھر کوئی تقریب منعقد کرکے یکجہتی کا اظہار کریں لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان کے اس عمل اور تمام تر اقدامات سے کیا کشمیر آزاد ہو جائے گا؟

کیا بھارت اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ دے گا؟ کیا بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کردے گا اور کشمیر میں لاگو طویل 365 روز کا کرفیو ہٹا دے گا؟ کیا کشمیر یوں کو آزادی رائے کا حق دیا جائے گا؟ کیا کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادنہ طور پر کرسکیں گے؟ جواب منفی ہے، کیوں کہ گزشتہ 72 سالوں میں بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے ہر دور میں چالیں چلی ہیں ایسے میں بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور دعویٰ سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا نہ ہی کسی بیرونی یا بین الاقوامی دباؤ میں آئے گا۔

کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی کے لیے بیان بازی اور جلسے جلوسوں نعروں اور ہمدردی کے بجائے پاکستان کو نتیجہ خیز فیصلہ کرنا ہوگا جو کشمیریوں اور پاکستانیوں کی امنگوں کے مطابق ہو، کیونکہ اب ہمارے پاس نہ تو قائداعظم موجود ہیں جنہوں نے اپنی فکر و فلسفے اور قلم سے دنیا کا نقشہ تبدیل کیا اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے 71 کی جنگ میں شکست کے باوجود شملہ معاہدہ کے ذریعے 93 ہزار جنگی قیدی آزاد کرائے اور 5,795 اسکوائر میل پاکستانی علاقہ واگزار کرایا۔ کشمیریوں کی امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں، ایسے میں ان کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے پاکستان کو جامع اور فیصلہ کن حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی تاکہ وہ خواب آزادی اورخواب الحاق پاکستان جس کی خواہش کئی نسلوں سے کشمیری دیکھ رہے ہیں وہ شرمندہ تعبیر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments