وقت، سائنس اور قرآن


وقت کی قدر سپیس کے ذراتی سکون میں ثانیے کی طرح ساکن ہے، تو یہی ساکن ثانیہ لامحدود سپیس کے پھیلاؤ پر اپنی جنبش میں اسی دوران میں کلی حرکت بن کر ثبت ہے۔ یعنی وقت کا جو ثانیہ زمین کی تمام عبادت گاہوں میں دعا مانگنے والوں نے یکبارگی چن رکھا ہو گا، سب کا وہی ثانیہ ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش معلیٰ پر اللہ کے حضور بھی گوش گزار ہو رہا ہو گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جنت اور دوزخ تک اسی ثانیے کی لپک رسائی اسی دوران میں یک بہ یک ہو رہی ہو گی۔

وقت ازل تا ابد یکساں قدری اکائی ہے، جسے سائنس کی زبان میں شاید کوسمولوجیکل کانسٹنٹ جیسی تصوراتی فزکس کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کی تقسیم سپیس کو لاحق ہوتی ہے وقت ایسی تقسیم سے قطعی مبرا ہے۔ کائنات یا یونیورس بننے کا عمل اگر بگ بینگ یا عظیم دھماکے سے شروع ہوا تو اس دھماکے کا مواد یا سامان یقیناً پہلے سے کسی نہ کسی شکل میں وہاں سپیس کے اندر کہیں تشکیل پا رہا ہو گا جو وقت کے بغیر نا ممکن تھا۔

اس دورانیے کو اگر عدم کا دور کہا جائے، تو عظیم دھماکے کے بعد دور عدم خلا کا ماضی ہو کے رہ گیا کیونکہ تغیرات و واقعات کا نیا منظر سپیس پر چھانا شروع ہو گیا جو موجودہ صورت گری آنے تک کا دورانیہ ہے اور اس لحاظ سے یہ منظر سپیس کے حال کا ہے۔ ماضی اور حال کے بعد مستقبل لازمی ہے تو اس کلیے کی رو سے سپیس کا مستقبل، یقیناً کسی بگ کرنچ یا یوم حشر سے بھی ضرور ہم کنار ہو گا۔ وہ صورت گری کیسی ہو گی؟ ایسے سوال کا تعلق عالم غیب سے ہے جس کی حد وہاں سے آگے شروع ہوتی ہے، جہاں انسانی منطق یا عقلیت کی حد رسائی جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ منطق یا عقلیت کی حد سے آگے ایمان یا عقیدت کی حد آ جاتی ہے، جس کی علمی معنویت قرآن میں مذکور ہے۔

سٹیون ہاکنگ کائنات کی گہرائیوں میں کار فرما تصوراتی طبیعات کے تحقیقاتی امور میں ایک بہت بڑا نام ہے، جسے اس میدان میں انسانی منطق یا عقلیت کی اس حد کو چھونے کا بھی اعزاز حاصل تھا اور اس حوالے سے جدید سائنس کی دنیا میں اس نے بلیک ہول تھیوری بھی متعارف کرائی، لیکن شاید انسانی ایمان یا عقیدت کی حد کو آگے چھونے سے وہ بوجوہ قاصر ثابت ہو کے رہ گیا، کیونکہ کائنات کے اوریجن اور مقدر کے باب کا اختتام کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:
’جب تک کائنات کا ایک آغاز تھا تو ہم فرض کر سکتے تھے کہ اس کا ایک خالق ہو گا۔ لیکن اگر کائنات واقعی بالکل خود کفیل ہے اور کسی حد یا کنارے کی حامل نہیں، تو پھر نہ اس کا آغاز ہو گا نہ انجام۔ پھر خالق کے لیے یہاں کون سی جگہ ہے؟‘

کتاب کے شروع کے صفحات میں وقت اور کائنات کے بارے میں قدیم سے دیے گئے نظریات کے سلسلے میں ایمانوئل کانٹ سے استفادہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس نے اپنے دعوے میں دو دلیلیں دیں۔ پہلی یہ تھی، اگر کائنات کی ابتدا نہ ہوتی تو ہر واقعے سے قبل ایک لامحدود وقت ہوتا جو اس کے خیال میں غیر معقول بات تھی۔ جوابی دعوے کے لئے اس کی دلیل یہ تھی کہ اگر کائنات کی ابتدا ہوتی، تو اس سے قبل بھی لا محدود وقت ہوتا، پھر کائنات کیوں ایک خاص وقت پر شروع ہوتی؟

ہاکنگ کے اپنے نزدیک کائنات کی ابتدا سے قبل وقت کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مذہبی حوالے سے سینٹ آگسٹائن سے پوچھا گیا کہ کائنات تخلیق کرنے سے پہلے خدا کیا کر رہا تھا، تو اس نے کہا، ’وقت کائنات کی صفت ہے جو خدا نے بنائی ہے اور وقت کائنات سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔‘

آگے چل کر ہبل کا تجویز کردہ مشاہدہ لکھا جو اس نے پیش کیا کہ ’جہاں سے بھی دیکھا جائے دور دراز کہکشائیں ہم سے مزید دور جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے وقتوں میں اجرام ایک دوسرے سے قریب تر رہے ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ دس یا بیس ارب سال پہلے، جب وہ سب ٹھیک ایک جگہ تھے تو کائنات کی کثافت لا محدود تھی۔‘ اس لئے جب کائنات لا انتہا مختصر اور بے انتہا کثیف تھی تو بگ بینگ یا عظیم دھماکا ہوا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بگ بینگ سے وقت کا آغاز ہوا، کیونکہ اس سے قبل کے وقت کی تشریح نہیں کی جا سکتی۔
(سٹیفن ہاکنگ وقت کا سفر ترجمہ ناظر محمود)

یہی تو خالق کی سوچی سمجھی سکیم اور اس کی تخلیقات کا حسین کرشمہ ہے کہ کائنات بننے سے قبل کے وقت کی تشریح سے لے کر خالق کی شان ذات، موت، ملائکہ، یوم آخرت، دوزخ و جنت تک کے تمام حقائق انسانی منطق یا عقلیت کی تشریح کے لیے سنسرڈ رکھے گئے، تا کہ عالم ظاہر کی تشریح کا باب تو کھلا رہے لیکن عالم غیب کی تشریح کا باب بند کر کے ایمان یا عقیدت کا امتحان لیا جاتا رہے۔ شاید اللہ کو اپنی اطاعت کے لیے برہنہ حقیقت کا کھولنا گوارا نہیں تھا اور اس کی سوچی سمجھی سکیم کا محرک بھی یہی ہو کہ وہ کیا خدا ہو گا، جس کی اطاعت کا دار و مدار برہنہ حقیقت پر استوار ہو۔ خدا تو وہ ہو گا، جس کی اطاعت برہنہ حقیقت کے بغیر بھی مانی جا سکتی ہو اور منوائی بھی جا سکتی ہو۔ (و اللہ اعلم با الصواب)

بگ بینگ سے پہلے وقت اور کائنات کی تشریح کے لیے اور کوئی مشاہداتی بنیاد تصور نہ بھی کی جا سکے، اس کے باوجود سائنس وقت، جگہ یعنی ٹائم، سپیس کی جڑی جومیٹری کا ایک تصور قابل یقین گردانتی ہے۔ جس کی تشریح قرآن میں یوں دو لفظوں میں اللہ نے خود طے کر دی:
’وہ جو (ہمیشہ سے) زندہ ہے اور سب اجسام کو قائم کر رکھنے والا ہے۔ دونوں لفظوں کے معنوں پر غور کیا جائے تو پہلا لفظ اللہ کی اپنی زندگی کا پتا عیاں کرتا ہے۔ زندگی چونکہ وقت سے مشروط ہوتی ہے تو اس لیے اللہ کی زندگی ہی کلی وقت کا عہد یا پرتو بن کر ثبت ہو گیا۔ اللہ کی زندگی ازل تا ابد قائم ہے اور رہے گی تو اسی طرح وقت بھی ازل تا ابد یکبارگی قائم و دائم ہو گیا۔ یعنی امر ہو گیا۔ اگلا لفظ قیوم یا قائم کرنے والا کا ہے۔ تو کسی وجود یا جسم کے قیام کرنے یا ہونے کے لیے جگہ یا جائے مکان ہونا ضروری ہے جو سپیس کی بے کراں وسعتوں کی شکل میں سائنس کو بھی معلوم ہے۔ یوں ٹائم اینڈ سپیس یا زمان و مکان کی جڑی جیومیٹری کے معنی قرآن کے دو لفظوں میں بھر دیے گئے۔

وقت اپنی جگہ غیبی اکائی کا عالم ہے تو سپیس کا منظر خلائی میدان کا ظاہری عالم ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس دوران میں سپیس کے اندر خدا کی اپنی قیام گاہ کا ثبوت قرآن نے کس طرح بتایا ہے۔ اسی طرح زمین و آسمان اور ان سب کی ضروریات کے مطابق نقش و نگار کی صورت گری جیسے دیگر تمام سوالات کے جوابات جو قرآن سے ملتے ہیں ان سب کا مختصراً علم قرآن سے ہو جاتا ہے مثلاً:
“وہ (فرشتے ) جو عرش معلیٰ کو اٹھاتے ہیں (حاملین عرش) اور اس کا طواف کرتے ہیں (کروبیاں)”، “بلند درجے دینے والا خدا (ذولعرش)” یا پھر جب کوئی حکم تو یہی کہتا ہے کہ “ہو جا (کن) جبھی وہ ہو جاتا ہے (فیکون)”۔

’تم (اے نبی) انہیں فرما دو، کیا تم لوگ اس کا انکار رکھتے ہو، جس نے دو دن میں زمین بنائی اور اس کے ہم سر ٹھہراتے ہو؟ وہ ہے سارے جہان کا رب۔ اور اس میں (زمین میں) اس کے اوپر وزنی پہاڑ ایستادہ کیے اور اس زمین میں برکت رکھی اور اس کے بسنے والوں کی روزیاں مقرر کیں۔ یہ سب ملا کر چار دن ہیں۔ پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور وہ دھواں (دخان) تھا تو اس سے اور زمین سے فرمایا دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے نا خوشی سے۔ دونوں نے عرض کی ہم بہ رضا و رغبت حاضر ہیں، تو انہیں پورے سات آسمان کر دیا فقط دو دن میں۔ (کل چھے دن ہوئے)۔ اور ہر آسمان میں اسی کے کام کے احکام بھیجے اور ہم نے نیچے کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کر دیا۔‘

یوم حشر بھی بتا دیا جو سپیس کا مستقبل ہو گا کہ “تو تم اب اس دن کے منتظر رہو جب پھر ایک ظاہر دھواں لائے گا کہ لوگوں کو ڈھانپ لے گا”۔ یہ ہو گا دردناک عذاب۔ نظام تخلیقات خود کار نہیں بلکہ خالق کی سوچی سمجھی حکمت کا نتیجہ ہے۔

اوپر کی آیات میں دنوں کا شمار سورج کے بغیر ہوا ہو گا تو نا معلوم ایک دن کتنے زمینی سالوں کا ہو گا؟ اصحاب کہف تین سو نو دنیاوی سال حالت نیند میں رہے۔ بیداری پر انہیں یہ عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوا۔ حضرت عزیر مرنے کے سو سال بعد زندہ ہوئے تو انہوں نے زندہ ہونے پر اس عرصے کو دن بھر کا یا اس سے کم جان کر بتایا۔ وقت یکساں ثانیے کی کلی جست ہے، جو کائنات ظاہری اور غیبی کائناتوں تک یکبارگی محیط ہے۔ کیونکہ اللہ ہر جسم کے ذرے سے لے کر سب کائناتوں کے لامحدود کناروں تک یکبارگی جلوہ گر ہے۔ کوئی اونگھ یا نیند اسے نہیں آتی۔

حوالہ جات:
Surat 40, ayat 7,15,68
Surat 41, ayat 9 to 12
Surat 44, ayat 10
Surat 18, ayat 11 & 25
Surat 2, ayat 259


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments