کیا کورونا دنیا کا اختتام ہے؟


کورونا نے عالمی سطح پر سماجی زندگی کا نقشہ مستقل بدل کر رکھ دیا ہے۔ حفاظتی ماسک اور دستانے عمومی زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ انسان، انسان سے دور بھاگنے لگا ہے۔ رضاکارانہ حفاظتی رویوں کا انتظام آداب زندگی کا جزو لازم ہو چکا ہے۔

اب دنیا میں کیا ہو گا، اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں۔ لیکن اب کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس کا جواب بہت سے لوگوں کے پاس ہے۔ کورونا وائرس کے ساتھ یا اس کے بعد کی دنیا کیسی ہو جائے گی، اس کے خد و خال کیا ہوں گے؟ کورونا کے بعد دنیا یکسر مختلف ہوگی سوچنے کا انداز بدل جائے گا؟ کیا جان لیوا نادیدہ کورونا وائرس دو ماہ میں ختم ہو جائے گا؟ اور کیا اس کی ویکسین مفت میں دستیاب ہو گی؟ کیا اس کی شدت میں اس حد تک کمی آ جائے گی کہ زندگی دوبارہ پرانی ڈگر پہ لوٹ آئے؟ کیا اس کی شدت میں اور اضافہ ہو گا کہ اب سے کئی گنا زیادہ کیس اور اموات ہوں گی اور زندگی انتہائی مشکل ہو جائے گی؟ اس بات سے قطع نظر کہ کورونا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے بنی نوع انسان یہ جان لے گا اور جانچ بھی لے گا کہ اس کے ساتھ کس طرح چلتے رہنا ہے۔

کوئی وبا یا قدرتی آفت ہو، یہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ کورونا فقط دنیا کے زوال کے طرف اشارہ نہیں کر رہا بلکہ اس بات کی طرف بھی متوجہ کر رہا ہے کہ اس کے بعد دنیا کا نظام تبدیل ہو جائے گا۔ کورونا یہ بھی بتا رہا ہے کہ ایٹم بم دنیا کا قدیمی اسلحہ ہو چکا ہے اور اب دنیا پر ایٹم بم نہیں بلکہ بائیولوجیکل سائنس کی حکمرانی ہو گی، دنیا ڈیجیٹل ہو جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی غالب گمان تھا کہ یہ آخری زمانہ ہے اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور نزدیک ہے، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ ایک نئے اقتصادی اور صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو گیا اور دنیا میں ایک جدید نظام کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد یورپ نے اقتصادی میدان میں اس قدر ترقی کی کہ یورپی یونین کی تشکیل کے ساتھ جرمنی، فرانس اور انگلینڈ دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں شامل ہو گئے۔

دنیا کے مفکرین اور تجزیہ نگار اس فکر اور سوچ میں ہیں کہ کورونا کے بعد دنیا کا مستقبل کیا ہو گا؟ بعض مفکرین کے مطابق دنیا کی موجودہ حالت خطرے میں ہے اور دنیا بالکل تبدیل ہونے جا رہی ہے۔

ایک نیا نظام ہو گا اور حکمرانی کا طریقہ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ بعض مفکرین کا خیال ہے کہ ہم آخری زمانے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور نزدیک ہے۔ کورونا کو تیسری جنگ عظیم کا نام بھی دیا جا رہا ہے، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کورونا وائرس سونامی سے بھی بدتر ہے، جس طرف بھی رخ کر رہا ہے، تباہی پھیلا رہا ہے لاکھوں نفوس لقمہء اجل، معاشی تباہی کر گیا۔ کورونا کا ڈر اور خوف اپنی جگہ پر، لیکن کرونا کے بعد دنیا کا کیا ہو گا؟ اس طرح کے سوال باعث تشویش ہیں۔

دنیا کے طاقتور ترین ممالک امریکا اور یورپی ممالک اپنے آپ کو دنیا کا نجات دہندہ سمجھنے والوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس وائرس سے کیسے نمٹا جائے۔ یہ ممالک بھی اس وائرس کے مقابلے سے عاجز دکھائی دیتے ہیں۔ ڈر اور خوف کے مارے اس کا اعتراف بھی کر رہے ہیں، جس کی ایک مثال جرمن ریاست کے وزیر خزانہ تھامس شیفر کی خود کشی ہے۔ امریکا کے معروف مفکر اور تجزیہ نگار ایمانوئل والرسٹن جو کہ ماہر عمرانیات اور ماہر معاشیات بھی ہیں، اپنی معروف کتاب The Modern World System میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا کا نظام دو قطبی یعنی شرق و غرب سے نکل کر تین قطبی یا چند قطبی کی طرف جا رہا ہے۔

کورونا کے بعد کی کہانی کیا ہو گی، اس کے بارے میں ایمانوئل والرسٹن کا مقالہ (Consequences of U۔ S۔ Decline) ، جو 2013 ء میں شایع ہوا، میں لکھا ہے، ہم آنے والے وقت میں دنیا میں ایک جدید نظام کا مشاہدہ کریں گے، جس میں امریکا سپر پاور نہیں ہو گا اور اس کا متبادل چین ہو سکتا ہے، لیکن تجزیہ نگار کے مطابق امریکا کے بعد کسی ملک کو دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے نصف صدی کی ضرورت ہو گی، جو ایک طویل عرصہ ہے۔ ان پچاس برسوں میں کئی اہم واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ امریکا کے فوراً بعد شاید کوئی بھی ملک دنیا پر حکمرانی کرنے کے قابل نہ ہو اور دنیا کو کنٹرول کرنا ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہو گی، بلکہ ممکن ہے کہ چند ممالک مل کر دنیا میں حکمرانی کریں۔

2013ء کے ایک مقالے میں لکھا گیا ہے کہ امریکا کو عراق اور افغانستان سے بری طرح شکست کھا کر نکلنا پڑے گا اور ڈالر کی جگہ چین کی کرنسی یوان یا روس، چین، ترکی، ایران، پاکستان و ایشیا کے کچھ اور ممالک مل کر ڈالر کے متبادل کوئی کرنسی متعارف کروائیں گے، جس سے امریکا، اس ضعیف اور ناتوان بوڑھے کی طرح ہو جائے گا، جو فقط اپنے زندہ ہونے کا اظہار کر سکے گا اور یورپی ممالک بھی اس طرح سے اہم نہیں رہیں گے۔ مشرق وسطی کی صورت حال کو دیکھ کر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اب مشرق وسطیٰ میں آخری سانسیں لے رہا ہے اور کسی صورت بھی اس خطے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ ایران کے سپاہ پاسداران کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکا کی کامیابی مشرق وسطیٰ میں مشکل سے ناممکن تک کا سفر طے کر چکی ہے۔

امریکا اپنے زوال کا سبب ایران کو سمجھتا ہے۔ ایران خطے میں امریکا کی ہر پالیسی کی مخالفت بھی کرتا ہے اور اس کا راستہ بھی روکتا ہے، جس کی وجہ سے امریکا، ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے اور اس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم بھی جو شاہد کبھی بھی آن لائن نہ ہوتا، وہ بھی آن لائن کی طرف آ رہا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ دنیا بدل رہی ہے اور یکسر نظام زندگی بدل جائے گا۔ اور شاہد دنیا کی معاشی حالت کو سنھبلتے میں وقت لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments