پردیس میں زندگی آسان نہیں


عطیہ پانچویں کلاس میں تھی ایک دن وہ سکول سے واپس گھر آ رہی تھی کہ اس کے محلے کے ایک لڑکے نے بتایا تمہارے ابو جہاز سے گر گئے ہیں۔ وہ بھاگتی ہوئی گھر گئی، سب رو رہے تھے، وہ امی سے پوچھتی ہے امی ابو کو کیا ہوا ہے؟ کیوں رو رہی ہیں آپ؟ ابو کدھر ہیں؟ کیا ابو پاکستان آ رہے تھے؟ ایسے بہت سے سوال اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے، اتنے میں خالہ بولی تمہارے ابو کا تیسری منزل سے گر کے بازو ٹوٹ گیا ہے۔ وہ پچھلے دو سال سے روز گار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھے۔

عطیہ بھی امی کے ساتھ بیٹھ گئی اور ابو کی صحت یابی کے لئے دعائیں کرنے لگی۔ پردیس میں کون کسی کا ہوتا ہے پتہ نہیں اب نذیر بھائی کا کیا ہو گا، سب ایسی ہی باتیں کر رہے تھے۔ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر انسان کو پردیس بھی کاٹنی پڑھتی ہے۔ اللہ بھائی کو تندرستی عطا کرے ایسی بہت سی باتیں عطیہ سن رہی تھی۔

واقعی پردیس بہت سخت ہے پیسے کمانے اور اپنے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے بندہ سخت سے سخت کام بھی کرتا ہے۔ کبھی دھوپ میں کبھی تیز بارش میں اور کبھی تو بھوکے پیٹ بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ اپنے آرام کی پروا کیے بغیر کام کرتے ہیں کیوں صرف اپنی فیملی کے لئے، ہاں کام کرنے کے ان کو پیسے تو ملتے ہیں مگر صرف دیکھنے کے لئے خرچ تو ان کے گھر والے کرتے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ میرے گھر والے تو اچھا کھا پی رہے ہیں، خود چاہے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیں۔

لوگوں کی باتیں بھی سنتے ہیں اور ان کا کام بھی کرتے ہیں کس لئے صرف پیچھے والوں کے لئے۔ گھر آ کر اپنا کھانا بھی خود بناتے ہیں اور کبھی تو تھکاوٹ کی وجہ سے بھوکے پیٹ ہی سو جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ وہ کس لئے برداشت کرتے ہیں؟ اپنے آپ کو مار دیتے ہیں تا کہ دوسرے جی سکیں۔ لیکن جب گھر والے یہ کہتے ہیں نا کہ اس دفعہ پیسے لیٹ ہو گئے ہیں، فلاں کے بیٹے نے تو ابھی کل ہی اسی ہزار بھجوایا ہے، ہمارا تو گھر کا راشن ختم ہو گیا ہے، بچوں کی سکول کی فیس دینی ہے اور اخراجات کی ایک لمبی لسٹ تیار ہوتی ہے اس سے پہلے ذرا یہ بھی سوچ لیا کریں کہ ہمارا بیٹا، بھائی، شوہر درختوں سے پیسے نہیں توڑتے پردیس میں اپنی جان مار کرپیسہ کماتے ہیں۔

ان کا ہمدرد بنیں ان کا احساس کریں کیوں کہ پردیس میں ماں نہیں بیٹھی ہوئی جو مشکل پریشانی ہیں انہیں حوصلہ دے گی۔ ہمت اور حوصلہ برے وقت کو مات دے دیتا ہے۔ اپنے پیاروں کو ذہنی تناؤ سے بچائیں نہ کہ ان کو اس میں مبتلا کریں۔ پچھلے کچھ دنوں میں بیرون ملک مقیم کچھ لوگوں نے خود کشی کر لی وجہ کرونا کی وجہ سے بیروز گاری۔

بیروزگاری نے تو ان کی جان نہیں لی ان کی جان تو ان سے وابستہ لوگوں نے لی۔ جو انہیں پیسے نہ بھیجنے اور گھر میں غربت ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا کرتے ہوں گئے۔ ذہنی تناؤ ان کی موت کا سبب بنا۔

عطیہ کے ابو کی طرح کئی لوگ پردیس میں حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی قدر کریں جن کی وجہ سے آپ ایک محفوظ چھت تلے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لئے خوشی کا باعث بنیں پریشانی کا نہیں۔ ذہنی سکون بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ جتنا ہے جیسا ہے اس ہیں خوش رہنا سکیں دوسروں کو دیکھ کے اپنا سکون برباد مت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments