کیا شبیر احمد عثمانی قائد اعظم کے ساتھی تھے؟


\"wajahat1\"قیام پاکستان کے بعد نئے وطن میں قدامت پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے درمیان تقسیم میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا نام بہت اہم ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کے مابین اختلافات تو کچھ ایسے ڈھکے چھپے نہیں۔ تاہم قیام پاکستان کے فوراً بعد کی سیاسی صورت حال میں لیاقت علی خان قائد اعظم محمد علی جناح کی براہ راست مخالفت کی ہمت نہیں کر سکتے تھے۔ متعدد مورخین کا خیال ہے کہ لیاقت علی خان قائد اعظم کے سیاسی موقف کی مخالفت کے لئے علامہ شبیر احمد عثمانی کے مذہبی تشخص سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی ابتدائی طور پر تحریک خلافت کے حامی تھے۔ انہوں نے 1927ءکے لگ بھگ ’الشہاب ‘ کے عنوان سے ایک کتا بچہ تصنیف کیا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ارتداد کی سزا موت ہے۔ جب اوودھ میں تعلقہ داریوں (جاگیروں) کا سوال اٹھا تو شبیر احمد عثمانی کا فتویٰ تھا کہ ’تعلقہ داریوں کی حفاظت میں جان دینا شہادت ہے‘۔ موصوف پاکستان میں ذمیوں ( یعنی غیر مسلم شہریوں) سے جزیہ وصول کرنے کے حق میں تھے۔ ان کی رائے میں غیر مسلم شہریوں کو قانون ساز اسمبلیوں یا پالیسی ساز اداروں کی رکنیت کا حق نہیں تھا اور نہ انہیں ’کلیدی مناصب‘ پر فائز کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کی سیاسی لغت میں ’کلیدی منصب‘ کی مبہم لیکن نہایت خطر ناک اصطلاح شبیر احمد عثمانی ہی کی دین ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر علی خان نے ”سرفروشان اسلام“ نامی عسکری تنظیم بھی تشکیل دی جو مشرقی پنجاب کو فتح کرنے اور لال قلعے پر پرچم لہرانے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اس ضمن میں روزنامہ زمیندار کے ایک مضمون کا عنوان تھا ”غیور مسلم نوجوانو! مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کی تمیز اڑا کر جوق در جوق خدا کی تنظیم میں بھرتی ہو جاﺅ“۔ یہ مضمون اس قدر اشتعال انگیز تھا کہ حکومت پنجاب کو اخبار کی اشاعت دو ہفتے کے لیے بند کرنا پڑی۔

\"liaqatشبیر عثمانی زبان و ادب میں کوتاہ تھے۔ اردو کے صاحب طرز نثر نگار مختار مسعود ایسے سلیم الطبع ہیں کہ کسی کی ذات پر مذہبیت کی مہر دیکھتے ہی ریجھ جاتے ہیں لیکن ’آواز دوست‘ میں لکھتے ہیں، ”آپ نے شیخ الہند کے ترجمہ قران پاک پر شبیر احمد عثمانی کے حاشیے دیکھے ہوں گے، زبان کے لحاظ سے بہت معمولی ہیں۔“

شبیر احمد عثمانی صاحب مجلس احرار کے رکن تھے۔ 1930ءکی دہائی کے اواخر میں ان کے دیو بند کے کانگرس نواز مولویوں سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ 1944ءمیں مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی ۔ 1945-46ءکی انتخابی مہم میں مسلم لیگ کی حمایت کی۔ شبیر احمد عثمانی کو جون 1947ءمیں مشرقی بنگال کے کوٹا میں سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کارکن منتخب کیا گیا تھا۔ 26اکتوبر 1946ءکو انہوں نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی حامی تھی۔ ایک طالب علمانہ سوال بہر صورت کھٹکتا ہے۔ مسلم لیگ کا رکن ہوتے ہوئے مولانا شبیر عثمانی کو جمعیت علمائے اسلام قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جو ایک متوازی سیاسی جماعت قائم کرنے کے مترادف تھا۔ کیا وہ ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان کی رہنمائی پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ اس کا جواب جاننا ہو تو شبیر احمد عثمانی کے مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بارے میں سردار شوکت حیات کا بیان پڑھتے ہیں ۔ پڑھنے والے اپنی فہم کے مطابق اس سے نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

”نامور دیوبندی عالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک رات خواب میں اپنے استاد محترم کو دیکھا۔ جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں (استاد) نے خواب میں حضور اکرم ﷺ کو مدینہ میں اپنے گھر سے باہر آتے ہوئے دیکھا۔ وہاں پر ہندوستان کے علما صف بستہ کھڑے تھے۔ قطار کی دوسری طرف حضور نے ایک دبلے پتلے، لمبے یورپی لباس پہنے عمر رسیدہ آدمی کو دیکھا جو ملاقات کا منتظر تھا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ مسٹر جناح ہیں۔ نبی اکرم علما کی جانب سے منہ پھیر کر سیدھے جناح کی طرف \"shabirahmedusmani\"گئے اور انہیں سینے سے لگا لیا۔ دوران خواب مولانا شبیر احمد عثمانی کو ان کے استاد نے حکم دیا کہ قائداعظم کے پاس جاﺅ اور فوراً اس کے سیاسی مرید بن جاﺅ۔ چنانچہ مولانا نے قائد اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ قائد نے نواب شمس الحسن ، آفس سیکرٹری مسلم لیگ، کو مولانا کے قیام دہلی کے دوران ان کی مناسب دیکھ بھال کا حکم دیا۔ “ (A Nation That Lost its Soul -صفحہ 219)

لگے ہاتھوں شبیر احمد عثمانی کے بارے میں ایک اور گواہی بھی لے لیجئے۔ عبیدالرحمن کراچی کے ایک معروف وکیل تھے۔ آبائی خطہ سیتا پور تھا مگر تعلیم لکھنو میں پائی۔ نوجوانی میں تحریک پاکستان کے ضمن میں مسلم لیگ کے ساتھ سرگرم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد طویل عرصہ مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔ خواجہ ناظم الدین اور محترمہ فاطمہ جناح سے ربط رہا۔ کچھ عرصہ تحریک استقلال میں شامل رہے۔ فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی خود ساختہ مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ اپنی خود نوشت ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘ کے صفحہ 49پر لکھتے ہیں :

”قائد اعظم لکھنو تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لئے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور عیسائی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں…. جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا…. اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے ‘۔

اس اقتباس میں قائد اعظم کے بارے میں شبیر احمد عثمانی کی قدر پیمائی اور خود اپنی ذات مقدسہ کے بارے میں خود رائی کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔

سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس چوہدری فضل حق نے نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامے ”نظریہ“ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔ \"shabbir-usmani\"”علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کی وفات کے بعد بتایا کہ قائدمرحوم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ وہ لندن کی خود اختیار کردہ جلاوطنی کو سرور کائنات کے حکم پر ختم کر کے واپس آئے تھے جو انہیں سرور کائنات نے ایک خواب میں دیا تھا۔ خواب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قائد نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم نہایت واضح تھا۔ ”محمد علی واپس جاﺅ اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرو“۔ قائداعظم نے یہ خواب سنا کر تاکید کی تھی کہ اس واقعہ کا ذکر ان کی حیات میں کسی سے نہ کیا جائے “ ( بحوالہ ڈاکٹر صفدر محمود ، روز نامہ جنگ، 29 ستمبر 2011ء)

قائداعظم کی نماز جنازہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”قائداعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائداعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“

سبحان اللہ! شیخ الاسلام کی سیاسی بصیرت میں خوابوں کو بہت دخل تھا ۔ اس میں تو کلام نہیں کہ حضرت کو رسالت مآب کی زیارت اکثر نصیب ہوتی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا کو اہم سیاسی سوالات کی وضاحت میں اپنی اس خوش نصیبی کے اظہار کی ضرورت کیوں پیش آتی تھی؟ یہ تو واضح ہے کہ ان سے نماز جنازہ سے متعلق سوال کرنے والا قائد اعظم کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتا تھا۔ مولانا نے ایسے کوتاہ اندیش کو دو ٹوک سیاسی انداز میں قائد اعظم کے مرتبے سے آگاہ کرنے کی بجائے اپنے مبارک خواب کا ذکر کیوں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کا سیاسی مو ¿قف بابائے قوم قائد اعظم کی دستوری اور سیاسی بصیرت سے متصادم تھا اور اس کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔

شبیر احمد عثمانی نے یکم ستمبر 1947ءکو اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی 20 روز قبل 11 اگست 1947 ءکو دستور ساز اسمبلی میں \"05th_jinnah_1477294f\"کی جانے والی تقریر کا جواب تھا۔ چند جملے ملاحظہ ہوں۔ ”میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے… یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی“۔

قائد اعظم اپنی تقریر میں فرما چکے تھے کہ ”وقت گزرنے کے ساتھ (پاکستان میں) ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں، ریاست کے شہری کے طور پر“۔ چنانچہ سیاست کے غیر جمہوریت پسند حلقوں کے مہرے کے طور پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے یہ گرہ لگانا بھی ضروری سمجھا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہوں مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments