عیدالضحی کی قربانی


آج صبح عید کے دوسرے دن جب میں اپنے گھر سے باہر نکلا تو محلے والا ایک دیہاڑی دار شخص بیلتون چاچا سامنے انتہائی غمگین حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی ایک ہاتھ میں رسی اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ آج دیہاڑی کے تلاش میں نکلا ہے۔ اکثر جب وہ مجھے باہر دیکھتے توخود گپ شپ مارنے کی پہل کرتے تھے لیکن آج مجھے ایسے محسوس ہوا کہ وہ بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ میں اس کے نزدیک بیٹھ کر بات شروع کی کہ ہر ایک چیز موجودہ حکومت میں دن بہ دن مہنگا ہو رہا ہے۔

بیلتون چاچا نے بھی بات شروع کی۔ انھوں نے کہا یار ہماری دیہاڑی پانچ سو روپے ہے جو کم و بیش لگتی ہے اور آٹا، چاول، چینی، چائے وغیرہ وغیرہ کی قیمتیں ہر دوسرے دن بڑھ رہی ہے پتہ نہیں ہمارا کیا ہوگا۔ کل بیٹی بیمار ہو گئی تو سرکاری ہسپتال میں دوہزار کا خرچہ آیا اب آٹا خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہے۔ انھوں نے کہا خدا سب کو خوش رکھے عید میں بہت سے لوگوں نے گوشت بھیجا ہے لیکن اس کو تو ایک دن روٹی کے بغیر کھایا جا سکتا ہے اگلے دن پھر کیا کریں گے۔

جب بیلتون چاچا یہ باتیں کر رہے تھے تومجھے کراچی، لاہور، اسلام آباد کے مویشی منڈیوں میں پانچ، دس اور بیس لاکھ روپے پر خریدنے والے جانور یاد آئے جو کہ صرف شہرت کے لئے خریدے جاتے اتنی بڑی رقم سے کئی گھرانوں کے چولہے جل سکتے ہے لیکن ہم کو تو شہرت کی پڑی ہوئی ہے۔ اس وقت ہر گاؤں ہر گلی میں ایسے ہزاروں بیلتون چاچا ہوں گے جس کے گھروں کی یہی حالت ہوگی۔ لیکن نہ تو آج ہمارے پاس مرحوم ایدھی کے طرح کوئی ہے جو ان غریبوں کو کھانا فراہم کرے نہ کوئی اور ہے۔ مہنگائی نے بیلتون چاچا کی طرح کروڑوں لوگوں کے گھر اجاڑ دیے ہیں اور پتہ نہیں اور کیا کیا گل کھلائی گی۔

مہنگائی اور حکومتی کی جانب سے دی جانی والی سہولیات ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہے۔ کیونکہ جب ایک حکومت مہنگائی لانا چاہتی ہے تو عوام کو اس کے مطابق ریلیف بھی فراہم کرتی ہے جو کہ موجودہ حکومت میں ناپید ہے۔ آئے روز مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن بیلتون چاچا کی تنخواہ دو سال پہلی والی ہے وہ کیسے اپنے ضروریات پورا کریں گے۔ وہ کیسے اپنے بچوں کو پڑھائیں گے۔ اس کے لیے تو ایک رستہ بچا ہے اور وہ بغاوت ہے۔ پھر یہ بغاوت تباہی مچائے گا۔ کوئی بھی نہیں بچے گا۔

موجودہ حکومت جس نے اربوں ڈالر کا مشروط قرضہ عالمی بینک سے لیا ہے جس میں ٹیکس کی شرح بڑھانا ایک شرط ہے جس نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عالمی بینک کا مشروط قرضہ کسی ملک کی معیشت تو کچھ حد تک ٹھیک کر سکتی ہے لیکن اس ملک کے نچلے طبقے کے لوگوں کے لئے نوید سحر نہیں بن سکتی۔ یہ ادارہ انسانیت کے لئے خطرے کے شکل میں اپنے خدمات پیش کررہی ہیں جس کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments