ہولوکاسٹ سے آرٹیکل 370 تک


یہ کوئی اکیسویں صدی کا ماڈل نہیں بلکہ 1860 میں ہنگری میں پیدا ہونے والے ایک آسٹرین نژاد ہنگیرین یہودی صحافی، ڈرامہ نگار اور جدید صیہونیت کے بانی کی تصویر ہے۔ اس کا نام تھیوڈور ہرزل تھا۔ یہ 44 برس کی عمر میں آسٹریا میں 1904 میں فوت ہو گیا تاہم اس کی قبر یروشلم میں واقع ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے یہودیوں کو ایک الگ وطن کا خواب دکھایا اور اس مقصد کے لیے اس نے فلسطین کی سرزمین کا انتخاب کیا اس کا ماننا تھا کہ بائبل کے مطابق یہ یہودیوں کی سرزمین ہے (دوستو یاد رہے اس نے بائبل کا ذکر کیا تھا) ۔

جس طرح ہم علامہ اقبال کو مصور پاکستان کہتے ہیں ایسے ہی تھیوڈور ہرزل کو مصور اسرائیل کہا جاتا ہے۔ اس نے 1896 میں مختصر سا کتابچہ بعنوان یہودی ریاست شائع کیا۔ جس نے علمی سطح پر اسرائیل کے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلے کے طور پر بنا کر پیش کیا۔ 1897 میں اس نے سوئٹزر لینڈ میں عالمی یہودی کانگریس کا انعقاد کیا جس میں اسے عالمی یہودی تنظیم کا صدر چن لیا گیا۔ یاد رہے تھیوڈور کو اسرائیلی اعلان آزادی میں بابائے قوم کا خطاب دیا گیا ہے ۔

تھیوڈور نے جب سرزمین فلسطین کا انتخاب برائے یہودی ریاست کیا تو بہت سے ساتھیوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاں تو عرب رہائش پذیر ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسطین میں صدیوں سے یہودی آباد تھے اور ان کے ہاں کسی بھی قسم کے ریاستی عزائم یا علاحدہ سے کسی خطے یا اسی خطے کے حصول کی کوئی خواہش نہ تھی یا کم از کم سیاسی سطح پر سامنے نہ آئی تھی۔ سوال یہ تھا کہ یہودی جو زمانوں سے یہاں عربوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے اور ان کے یہاں کوئی باہمی تنازع بھی نہ تھا جو باعث نزع ہو تو کیا وجہ تھی کہ وہ عربوں کے خلاف ہو کر ایک الگ ریاست کے قیام کے لیے اکٹھے ہو گئے۔

یہودی دانش ور اسحاق بن اراہوان کے مطابق یہ تبدیلی یہودیوں میں علم اور دانش سے آئی جوں جوں وہ تعلیم سے بہرہ مند ہوئے انہیں احساس ہوتا گیا کہ انہیں ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ فلسطین دراصل اسرائیل کا حصہ ہے۔ دوسری طرف عرب تجزیہ کار اور Knesset کے رکن عزمی بشار کا کہنا ہے کہ تنازع نے جنم لینا ہی تھا کیونکہ یہ ایک کلونیکل پراجیکٹ تھا۔ Knesset کو آپ یوں سمجھ لیجیے کہ اسرائیل کی قانون ساز اسمبلی۔

اب آپ یہ ذہن میں رکھیے کہ نوآبادیاتی نظام ”تعلیم“ کے نام پر شعور سے زیادہ تقسیم پر یقین رکھتا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی سامراج گیا وہاں اس نے مذہب کو چھیڑنے کی بجائے قدیم فکری نظام کو نئے اور جدید نظام تعلیم سے بدل دیا۔ جب بھی تبدیلی کی بات آئی تو آپ سمجھ لیجیے کہ سماج تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جائے گا جس سے قومی اور ملی جمیعت کو ٹھیس پہنچے گی اور سماجی اکائیاں باہم دست و گریبان ہوں گی تاریخ اور معاصر منظر نامہ سے آپ بخوبی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

فلسطینی عرب مسلمانوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا ظاہر ہے گھونسلہ بچانے کے لیے تو پرندہ بھی اپنے سے بڑے دشمن کے ساتھ لڑ پڑتا تھا یہ تو پھر بھی انسانوں کا معاملہ تھا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بابائے اسرائیل نے علاحدہ یہودی ریاست کے حصول کو مذہبی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا یہی کچھ ابتدائی صیہونی صلاح کار بھی کہتے رہے، گویا مقدس سرزمین کے حصول کا معاملہ ایک اختراعی بیانیہ تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہودی فلسطینی عربوں کی اس مزاحمت سے کم زور نہیں ہو رہے تھے بلکہ مزید طاقت ور ہوتے جا رہے تھے۔

اور یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی۔ یہودیوں نے خفیہ افواج بھی تیار کر لی ٰتھیں اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ درپردہ کون سے ہاتھ ان کے امداد کار تھے۔ 1930 میں یورپ سے بھاگ کر فلسطین جانے والے یہودیوں کے دستوں کی آمد سے یہودی مزید مضبوط ہو گئے۔ تاہم جب عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھایا کہ یورپ سے بہت زیادہ یہودی عرب علاقوں کا رخ کر رہے ہیں تو برطانیہ نے امیگریشن محدود کردی۔ تاہم ہٹلر کی سوشلسٹ رجیم سے بھاگنے والے یہودیوں کے لیے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک ایک علاحدہ ریاست کا بیج بو دیا گیا تھا۔

یورپ میں ہولوکاسٹ یا یہودی نسل کشی کے بعد یہودیوں کے لیے نئی جائے پناہ جنت ارضی سے کم نہ تھی۔ ہولوکاسٹ میں یورپ میں رہنے والے ایک تہائی یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا جن کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ تیس جنوری 1933 میں جب اڈولف ہٹلر کو چانسلر بنا دیا گیا تو اس کے پاس لامتناہی اختیارات آ گئے اور یہودیوں کو چن چن کر الگ الگ کیمپوں میں رکھا جاتا اور ان بے دردی سے موت کی گھاٹ اتارا جاتا۔ تاریخ میں تھوڑا پیچھے چلتے ہیں جب اس وقت کے برطانوی فارن سیکرٹری آرتھر بالفور نے برطانوی یہودیوں کے سربراہ لارڈ روتھ شیلڈ کو ایک خط میں یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک الگ وطن کے حصول کو خوش آئند تصور کرتا ہے اور اس ضمن میں یہودیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ تاہم امید کی جاتی ہے کہ یہودی مقامی آبادی کے ساتھ امن و سلامتی سے رہیں گے۔

بعد ازاں جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے برطانیہ نے معاملہ اقوام متحدہ کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 181 (II) کے تحت فلسطین کی تقسیم کا ایک منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ تنازعات اور تعصبات سے بھرا ہوا تھا۔ بعد ازاں خانہ جنگی کی کیفیت نے جنم لیا۔ احباب آپ اپنے ذہن میں برصغیر پاک و ہند کو بھی دیکھیے کہ کم وبیش اسی طرح کے حالات سے برصغیر کی مقامی آبادی بھی گزر رہی تھی۔

اقوام متحدہ کے منصوبے کی ناکامی اور خانہ جنگی کے بعد بالآخر 14 مئی 1948 کو اسرائیل نے ایک الگ ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ گولڈا مائر اسرائیل کی چوتھی وزیر اعظم بنیں۔ انہیں اسرائیلی سیاست میں آئرن لیڈی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں یہ اصطلاح برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے لیے بھی استعمال کیا جاتی رہی۔ گولڈا مائر کا دورانیہ 1969 سے 1974 تک کا تھا۔

معروف فلسفی اور نوآبادیاتی مطالعہ جات کے ایک لحاظ سے بانی ایڈورڈ سعید نے مصری اخبار الاہرام میں اپنے ایک مضمون Fifty years of dispossession جو کہ یکم مئی 1998 میں شائع ہوا تھا گولڈا مائر کا ایک بیان کوٹ کیا تھا، ”“ There were no such thing as Palestinians۔ یاد رہے گولڈا مائر کا یہ بیان سنڈے ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں 1969 میں شائع ہوا تھا۔ اس بیان کا تناظر یہ ہے کہ جب گولڈا سے آزاد فلسطینیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اس نے کیا کہا یہ اسی کے الفاظ میں پڑھیے کہ ترجمہ شاید اس رعونت کا احاطہ نہ کرسکے۔

“When was there an independent Palestinian people with a Palestinian state? It was not as though there was a Palestinian people in Palestine considering itself as a Palestinian people and we came and threw them out and took their country away from them. They did not exist,” Meir said.

اگر آپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھیے تو وہ بھی شاید کچھ ایسا ہی جواب دے کہ کشمیری لوگ تو موجود ہی نہیں ہیں۔ بھارت کے یہاں محکوم مقامی آبادی کی طرف یہ رویہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب 1971 کی جنگ میں اسرائیل نے بھارت کی ہر طرح سے عسکری اور سفارتی سطح پر مدد کی تھی۔ ایڈورڈ سعید خود بھی ایک بہت پراسرار شخصیت ہے اس کے اپنے یہاں فکری سطح پر اتنے تضادات ہیں کہ اس کو اپنا حامی سمجھنے والے ایک مقام پر جا کر حیران رہ جاتے ہیں کہ اصل میں وہ نئے سامراج کی مدد کر رہا تھا۔ آج فلسطین اور کشمیر دونوں محکوم اور مظلوم ہیں۔ دونوں کے پیچھے ایک ہی سامراجی طاقت کا ہاتھ کام کرتا رہا۔ یہ سامراج آج نئی پیکنگ میں نئے بیانیوں مگر پرانے معنوی نظام سے ہماری صفوں میں در آیا ہے دیکھتے ہیں کہ یہ عفریت ہمیں قابو کرتا ہے یا ہم۔ آخر میں ثنا اللہ ظہیر کا ایک شعر،

میں دے رہا ہوں تمہیں خود سے اختلاف کا حق
یہ اختلاف کا حق ہے مخالفت کا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments