نوشابہ کی ڈائری ( 8 ) ”آئندہ الطاف بھائی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولیے گا“


۔7 اگست 1987
اف کتنے خوف ناک لمحات تھے۔ سوچتی ہوں تو لرز جاتی ہوں۔ دھماکے کی اطلاع ملی تو ابو صدر ہی گئے ہوئے تھے، اپنی دکان کے لیے سامان لینے۔ رضیہ بھابھی کوئی چیز مانگنے آئی تھیں تو انھوں نے بتایا صدر میں دھماکا ہوا ہے۔ میرے اور امی کے تو پیروں سے زمین نکل گئی تھی۔ میں رونا شروع ہو گئی اور امی جائے نماز پر بیٹھ گئی تھیں۔ ابو جب گھر آئے تو جان میں جان آئی۔ امی نے فوراً صدقہ دیا۔ کتنا خوف ناک دھماکا تھا دو سو سے زیادہ زندگیاں ایک لمحے میں ختم ہو گئیں۔

ضیا الحق نے تو دھماکے کا ذمے دار افغانستان کے ایجنٹوں کو قرار دے دیا اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ آدمی تو اب مجھے بہت برا لگنے لگا ہے۔ اقتدار چھوڑ ہی نہیں رہا۔ بے چاری بے نظیر کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ بہت کچھ پڑھنے اور جاننے کے بعد احساس ہوا ہے کہ جنرل ضیا کے بارے میں میری سوچ غلط تھی۔ لوگ کہہ رہے ہیں دھماکا الذوالفقار نے کیا ہے۔ ہو سکتا ہے، وہ طیارہ اغوا کر سکتے ہیں تو دھماکا بھی کر سکتے ہیں۔ ظہور الحسن بھوپالی کو بھی الذوالفقار والوں ہی نے شہید کیا تھا۔

مجھے یاد ہے ان کے قتل کی خبر سن کر امی رونے لگی تھیں، میں نے پوچھا تھا یہ کون تھے؟ تو بتایا تھا ”ہمارے مہاجروں کا لیڈر تھا۔“ بھائی جان کا کہنا ہے کہ یہ دھماکا افغان مہاجرین کی کارستانی ہے۔ وہ افغان مہاجرین کے بہت خلاف ہیں، وہ کیا سب ہی۔ کہتے ہیں پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن افغان مہاجرین لے کر آئے ہیں۔

روز کے فساد اور کرفیو نے زندگی عذاب کی ہوئی تھی کہ اس دھماکے نے دل دہلا دیا، میرپور خاص میں تھے تو پڑھتے اور سنتے تھے کہ کراچی کے فلاں فلاں علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، یہاں آ کر پتا چلا کرفیو کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ روز کی کہانی ہے۔ اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر کرفیو کا اعلان ہوجاتا ہے۔ ماڈل کالونی اور ملیر لگتا ہے انڈیا اور پاکستان ہیں اور بیچ میں بچھی ریل کی پٹری سرحد۔ اس پٹری پر اب لوکل ٹرین کم گولیاں زیادہ چلتی ہیں۔

اس چکر میں میرا کوچنگ سینٹر جانا بھی بند ہو گیا ہے۔ بھائی جان نے منع کر دیا کہ کوئی ضرورت نہیں جانے کی وہ ”پی پی آئی“ کا علاقہ ہے۔ بات تو ٹھیک ہے، مجھے بھی ڈر لگنے لگا تھا، وہاں تو سارے پنجابی ہی پنجابی ہیں۔ اسی وجہ سے کلثوم اور نازیہ نے بھی کالج آنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کی طرح دو تین اور پنجابی لڑکیاں بھی بہت کم آتی ہیں۔ کلثوم آخری بار کلاس لینے آئی تو کہہ رہی تھی ابو میرا داخلہ علامہ اقبال کالج میں کرا دیں گے۔ وہاں پہلے اس لیے نہیں کرایا تھا کہ لڑکے ساتھ پڑھتے ہیں، اور خورشید گرلز کالج صرف لڑکیوں کا ہے اس لیے یہاں کرایا تھا۔

دونوں میری بہت اچھی دوست ہیں، دونوں ماڈل کالونی میں رہتی ہیں۔ اب ان سے کہاں ملنا ہوگا! پڑوس کا قادر جامعہ ملیہ کالج میں پڑھتا ہے اور میری دوست نبیلہ کا بھائی علامہ اقبال کالج میں۔ دونوں کو پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے لڑکوں نے بہت بری طرح مارا تھا، تب سے وہ کالج نہیں جا رہے۔ پتا نہیں کلثوم، نازیہ اور یہ دونوں لڑکے امتحان کیسے دیں گے؟

بھائی جان کی قادر سے بات ہوئی تھی۔ وہ کہتا ہے اگلے سال لیاقت کالج میں داخلہ لے لے گا۔ وہاں سب مہاجر ہیں نا، اے پی ایم ایس کا راج ہے کالج پر۔ پٹھان مہاجر کا سلسلہ رکا تو ایم کیو ایم اور پی پی آئی میں مار دھاڑ شروع ہو گئی۔ کوئی لاش ملتی ہے، پھر فائرنگ شروع ہوتی ہے، مزید لاشیں گرتی ہیں، لوگ زخمی ہوتے ہیں، فوج آجاتی ہے اور کرفیو لگ جاتا ہے۔

یہاں کرفیو بھی ایک کلچر بن گیا ہے۔ کرفیو کے دوران محلے میں ایک رونق لگی ہوتی ہے۔ مرد گلی میں بیٹھے گپیں لگا رہے ہیں، کوئی دانش ور بنا سیاسی حالات پر لیکچر دے رہا ہے، کہیں کوئی ٹولی بیٹھی بس جملے بازی اور کھی کھی کھی کرر ہے، لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ کوئی شلوار پر بس بنیان پہنے اور اسے بھی اٹھا کر پیٹ کھجاتا اور بغلوں میں خارش کرتا اپنے گھر سے نکلتا اور سڑک پر بیٹھے لوگوں سے پوچھتا ہے ”یار پان کی کوئی جگاڑ ہو جائے گی“ اسے بتایا جاتا ہے کہ ببن شٹر گرا کر پان بیچ رہا ہے، اور وہ جھٹ ببن کے کیبن کی راہ لیتا ہے۔

جیسے ہی فوجی آتے ہیں ہر طرف بھگدڑ مچ جاتی ہے، جس کا جس طرف منہ اٹھتا ہے اس سمت دوڑ لگا دیتا ہے۔ گھروں کے دروازے دن بھر کھلے ہوتے ہیں، بھاگنے والوں کو جو گھر قریب پڑتا ہے بلا جھجک اس میں گھس جاتے ہیں، جیسے خالہ جی کا گھر ہو۔ گھروں میں ان کا ”آؤ آؤ، جلدی سے چھپ جاؤ“ کہہ کر والہانہ استقبال کیا جاتا ہے۔ فوجی انھیں گھر میں گھستے دیکھ لیں تو چھت یا پچھلے دروازے کے ذریعے فرار کرا دیا جاتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے کرفیو لگا تو ہمارے گھر میں بھی دو لڑکے یوں ہی گھس آئے۔

امی نے جیسے ہی انھیں دیکھا فوراً بولیں ”ارے بے وقوفو! دروازے پر کیا کھڑے ہو اندر آؤ“ پھر انھیں لاکر صحن میں چارپائی پر بٹھا دیا۔ میں ان دونوں کو جانتی ہوں، پچھلی گلی میں رہتے ہیں۔ جب دیکھو گلی کے نکڑ پر، شبو بھائی کی پرچون کی دکان پر، کبھی پان کے کیبن پر آڑے ٹیڑھے کھڑے ہیں، کمینے مجھ سمیت ہر لڑکی کو دیکھتے ہی سیدھے ہو کر بال بناتے اور یوں مسکراتے ہیں جیسے لڑکی ان کی اس پان بھری لال مسکراہٹ پر مر مٹے گی، جب تک نظر آتے رہو دیکھتے رہیں گے منحوس۔ لیکن اس دن گھر میں کیسے سر اور نظریں جھکائے بیٹھے تھے۔ ایک کمینہ بولا ”باجی! پانی پلا دیں“ دل میں تو آ رہا تھا زہر پلا دوں۔

کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں سے فوجی جو سلوک کرتے ہیں وہ ایک الگ ہی منظر ہوتا ہے۔ کوئی مرغا بنا ہوا ہے، کوئی ناک سے زمین پر لکیریں کھینچ رہا ہے، کسی کو حکم ہوا ہے کہ گیند بن کر میدان میں لڑھکتے ہوئے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاؤ۔ ہمارے دودھ والے کو پکڑا تو اسے وہی دودھ جو وہ لایا تھا اتنا پلایا گیا کہ وہ بھر بھر دودھ کی الٹیاں کرنے لگا۔ میں کبھی دروازے پر لٹکی کبھی چھت کی منڈیر پر کہنیاں ٹکائے یہ منظر دیکھتی رہتی ہوں، اور سوچتی ہوں یہ کراچی والے اتنے سخت جان ہیں انھوں نے کرفیو کی مصیبت کو بھی تفریح بنالیا ہے۔

پنجابیوں اور مہاجروں کے درمیان مارا ماری پی پی آئی کے بننے کے بعد سے ہو رہی ہے۔ یہ پنجابی پختون اتحاد والے ایک نمبر کے بدمعاش ہیں۔ پی پی آئی کا صدر سرور اعوان کتنی گندی زبان استعمال کرتا ہے مہاجروں کے بارے میں۔ ایک دن ماڈل کالونی میں پی پی آئی کا جلسہ ہوا تھا، فائرنگ کی آواز یہاں تک آ رہی تھی۔ ہر جلسے میں ہوائی فائرنگ ضرور کی جاتی ہے، چاہے وہ ایم کیو ایم کا ہو، پی پی آئی کا یا عوامی نیشنل پارٹی کا۔ سب یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس کتنی طاقت ہے۔

شمن دادا کہتے ہیں، ”1857 میں لڑنے کی اتنی بھاری قیمت چکانی پڑی کے ہمارے لوگوں نے لڑنا تو کیا اسلحہ رکھنا بھی چھوڑ دیا۔ اب ہماری نئی نسل کے ہاتھوں میں پھر ہتھیار تھمائے جا رہے ہیں۔“ شمن دادا سے باتیں کرنا کتنا اچھا لگتا ہے، میں نے سگے دادا کو تو دیکھا نہیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے دادا ایسے ہی ہوں گے۔ دور کے رشتے دار ہونے کے باوجود کتنے قریب کے عزیز لگتے ہیں۔ چلو اس محلے میں کوئی اپنا رشتے دار تو ہے دور کا ہی صحیح۔ ورنہ تو خالہ، ماموں پھپھو، چچا سب اتنی دور رہتے ہیں کہ مہینوں میں جانا ہوتا ہے۔ شمن دادا کی باتوں ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتنے پڑھے لکھے آدمی ہیں، کیوں نہ ہوں آخر کالج میں لیکچرار رہے ہیں۔

شہاب بھائی نے شمن دادا کو جماعتی قرار دے دیا ہے۔ اس دن شمن دادا بیٹھے تھے اتنے میں شہاب بھائی بھی آ گئے۔ پی پی آئی کا ذکر نکلا تو شمن دادا نے کہہ دیا کہ ”یہ تو ہونا ہی تھا، ایم کیو ایم والوں نے پنجابیوں کو برا بھلا کہہ کہہ کر اور ان کے خلاف نعرے لگا لگا کر مہاجروں کو پنجابیوں سے لڑوا دیا۔ ورنہ جب 1972 کے فسادات ہوئے تو پنجابی اور پٹھان اردو کے لیے مہاجروں کے ساتھ تھے۔ نواب مظفر کے قائم کردہ مہاجر، پنجابی، پٹھان متحدہ محاذ نے سندھ کی ان تینوں قوتوں کو ایک کر دیا تھا۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا ایک پنجابی آزاد بن حیدر کراچی صوبہ تحریک چلا رہا تھا۔“

ابو نے بھی ان کی تائید کی۔ شہاب بھائی اس وقت تو خاموش ہو گئے بعد میں بھائی جان سے کہنے لگے ”یہ جماعتی ہیں۔“ انھیں کیا پتا شمن دادا جماعت اسلامی کے خلاف کتنا بولتے ہیں۔ سب شہاب بھائی کی طرح نہیں کہ بزرگوں کا احترام کریں۔ میری دوست نبیلہ بتا رہی تھی کہ اس کے ابو نے الطاف حسین کو کچھ کہہ دیا تو اس کا بھائی اکڑ کر کھڑا ہو گیا تھا کہ ابا! مجھے کچھ بھی کہہ لیں آئندہ الطاف بھائی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولیے گا۔ نبیلہ بتا رہی تھی ابا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ سن کر کتنا دکھ ہوا۔

ایم کیو ایم کے لڑکے الطاف حسین کے معاملے میں کتنے جذباتی ہیں۔ کوئی ان کے قائد کو کچھ کہہ دے تو لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے ایم کیو ایم کے کارکنوں سے لیے جانے والے حلف میں یہ الفاظ شامل ہیں ”میں الطاف حسین کو مہاجروں کا واحد مہاجر لیڈر مانتا ہوں۔“ یعنی مہاجروں میں اب دوسرا لیڈر پیدا ہونے پر پابندی لگ گئی ہے۔ الطاف حسین پر اندھا اعتماد ایم کیو ایم کے کارکنوں اور مہاجروں کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ شمن دادا کہتے ہیں ”یہ وہ رویے ہیں جو راہ نماؤں کو بے لگام کردیتے ہیں، پھر ان کے لیے ان کی ذات ہی سب کچھ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کی وفا اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ قوم کی عمارت کا واحد ستون بن جاتے ہیں اور جب گرتے ہیں تو پوری عمارت بی دھڑام سے گر جاتی ہے۔“

شہاب بھائی آج کل ایم کیو ایم کی انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ امی ابو سے بھی کہہ رہے تھے ایم کیو ایم ہی کو ووٹ دیجیے گا۔ ایک گھنٹے تک قائل کرتے رہے۔ بتا رہے تھے کہ ایم کیو ایم کوشش کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی سے بات ہو جائے دونوں جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں مل کر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کا مقابلہ کریں۔ بتانے لگے کہ ایم کیو ایم کے وفد نے پیپلز پارٹی والوں سے ملاقات بھی کی ہے۔ ابو کہتے ہیں ایم کیو ایم کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں، ان لونڈے لپاڑوں کو کون ووٹ دے گا۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے، نومبر میں انتخابات ہوں گے تو پتا چلے گا۔ شہاب بھائی کہتے ہیں اتنی نشستیں تو جیت ہی لیں گے کہ میئر لانے والی جماعت کو ہماری ضرورت پڑے گی۔

باجی کے جانے کے بعد گھر کیسا بے رونق ہو گیا ہے۔ باجی سے زیادہ چھٹکا سفیان یاد آ رہا ہے۔ ہر وقت غوں غاں کرنا یا رو رو کر گھر سر پر اٹھا لینا۔ مجھ سے کتنا مانوس ہو گیا ہے۔ کیوں نہ ہو، خالہ ہوں میں۔ اس کے پیدا ہونے کے چار پانچ دن بعد ہی باجی سسرال چلی گئی تھیں اس کے بعد اب آئی تھیں ایک ہفتے کے لیے۔ سفیان کتنا پیارا ہے۔ نقشہ تو غنی بھائی جیسا ہے مگر آنکھیں بالکل باجی پر گئی ہیں۔

اللہ اللہ کر کے بھائی جان کی شادی کی تاریخ طے ہوئی تو آگے بڑھ گئی۔ بھابھی کے گھر والے بھی کیا کریں، حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ انھیں اپنا علاقہ چھوڑنا ہی ہوگا۔ گرین ٹاؤن تو پنجابیوں کا گڑھ ہے، ان کے گھر کے بالکل سامنے پی پی آئی کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ بھابھی کی امی کہہ رہی تھیں رفاہ عام میں گھر ڈھونڈ لیا ہے، جلد شفٹ ہوجائیں گے۔ مطمئن تھیں کہ وہاں سارے اپنے ہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

ہم جس دن ان کے ہاں گئے ان کی پڑوسن بھی آئی ہوئی تھیں۔ وہ بھی مہاجر ہیں۔ کہہ رہی تھیں تریپن میں ہم لوگ رام پور سے آ کر لاڑکانہ میں بسے تھے بھٹو دور میں فسادات ہوئے تو لاڑکانہ چھوڑ کر کراچی آ گئے۔ پہلے ملیر میں کرائے کے مکان میں رہے پھر گرین ٹاؤن میں گھر بنایا جو اب اونے پونے بیچ کر کہیں اور جائیں گے۔ ایک دن پی پی آئی والوں نے ان کے بیٹے کو پکڑ لیا تھا، مارا پیٹا بھی انھیں شک تھا کہ وہ ایم کیو ایم میں ہے۔ محلے کے پنجابیوں نے منت سماجت کر کے جان چھڑائی۔

امی نے پوچھا اب کہاں گھر لیں گی۔ کہنے لگیں، ”ڈھونڈ رہے ہیں۔ دیکھیں اب کہاں گھر ملے اور وہ کب چھوڑنا پڑے۔“ شہر کے بہت سے علاقوں سے اسی طرح کی ہجرت ہو رہی ہے۔ ہمارے محلے سے بھی کاکی لوگ گھر بیچ کر پنجاب ٹاؤن چلے گئے۔ کاکی کتنے پیار سے مجھے ”باجی نشابہ“ کہتی تھی۔

یہ سب کیا ہورہا ہے؟ رہنے کے لیے گھر بناؤ پھر زندہ رہنے کے لیے چھوڑ دو۔ کیا ہمارا گھر بس ایسے محلے میں ہونا چاہیے جہاں سب ہر طرح ہمارے جیسے ہوں، زبان، مذہب، مسلک سب یکساں، اف، ایسی بستی کے بارے میں سوچ کر بھی کتنی بے زاری ہوتی ہے جہاں سب ایک سے ہوں، جہاں کوئی ذرا الگ لہجے میں ”باجی نشابہ“ کہنے والا نہ ہو۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: کیا ہر وقت دہلی کی باتیں، چھوڑیں نہ یہ دہلی دہلینوشابہ کی ڈائری: وہ کسی اسامہ نام کے مجاہد سے بہت متاثر ہوا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments