انصاف نہیں۔۔۔ تحریک انصاف کی ڈولتی ناؤ


\"Shahid ایک عجیب دوراہا ہے۔ کرپشن ہوئی ہے مگر کرپشن نہیں ہوئی۔ اثاثے چھپائے گئے ہیں مگر اثاثے نہیں چھپائے گئے۔ 62، 63 کی خلاف ورزی کی گئی ہے نہیں ان دونوں دفعات کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ ایک عجیب دوراہا ہے۔ سب کچھ واضح ہو کر بھی واضح نہیں ہے۔ سب کچھ سامنے ہے پھر بھی سب کچھ اوجھل ہے۔ کیس کا فیصلہ اُسی دن ہو گا جس دن سماعت ہے۔ نہیں کیس کا فیصلہ آج بھی نہیں ہو سکے گا۔ مجھے وکیل پہ اعتماد ہے۔ نہیں جی مجھے وکیل پہ اعتماد نہیں ہے۔ مجھے انصاف پہ یقین ہے۔ مجھے انصاف پہ ہی یقین نہیں ہے۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے یا میرا دماغ خراب ہو گیا ہے یا میں پاگلوں کے لیے تحریر لکھ رہا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اور ایسا ہے بھی۔

جس طرح آپ کو الفاظ گڈ مڈ لگ رہے ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال آج کل پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہے۔ ایک عام پاکستانی کی طرح میں جیسے اس بات پہ کڑھتا ہوں کہ پاکستان کی سیاست کے فیصلے لندن یا دوبئی میں کیوں ہوتے ہیں پاکستان میں کیوں نہیں ہوتے بالکل اِسی طرح میری ذاتی رائے ہے کہ پاکستان میں لگے کیس کے گواہ خلیج سے کیوں آئیں۔ چوری ہوئی ہے یا نہیں۔ دھوکا دیا گیا ہے قوم کو یا نہیں۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن پہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ گرد جمتی جا رہی ہے اور نئے معاملات سر اُٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ اصل بنیاد دبنا شروع ہو گئی ہے۔ ایک شہزادہ سامنے آیا، اُس نے اپنے دستخطوں کے ساتھ خط لکھا،خط کی عبارت کا ایک ایک لفظ شکوک میں لپٹا ہوا تھا۔ مجھے بتایا گیا، میرا خیال ہے جیسے الفاظ قانون کی لغت میں شکوک کو ہی جنم دیتے ہیں ( اس پہ مزید رائے کوئی قانون دان ہی دے سکتا ہے)۔ اس کے علاوہ خط کے محرکات کیا تھے۔ یہ خط کن حالات میں لکھا گیا۔ کن لوگوں کے سامنے لکھا گیا۔ کس کے کہنے پہ لکھا گیا اور خط کے ساتھ کون کون سا ایسا امدادی مواد منسلک کیا گیا جو اس خط کی صداقت کی گواہی دے رہا ہو یہ تمام معاملات ہی شکوک کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن صد افسوس پاکستان تحریک انصاف، شیخ رشید، جماعت اسلامی پہ کہ وہ ایک اتنی مشکوک چیز سے بھی اپنی فتح نہیں نکال پا رہے۔

ایک ایسا خط جس کی بنیاد مفروضوں پہ ہے اگر یہ تمام لوگ مل کر اُس کو اپنے حق میں نہیں استعمال کر پا رہے تو کل کلاں ان کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑ آ گئی تو یہ کیا کریں گے یا ان سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ اب لندن یاترا کا کیا فائدہ، عقل کے اندھوں کو کوئی کیا بتائے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں مقدمہ تھا کسی سڑک یا چوراہے پہ نہیں کہ پہلے مقدمہ دائر کر دیا جائے پھر ثبوتوں کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا جائے۔ یقیناً صداقت کی مہر ثبت ہو رہی ہے اس بات پہ کہ جو لوگ ایک کیس تک باقاعدہ منصوبہ بندی سے نہیں لڑ پا رہے، جنھوں بیچ راہ میں گھوڑا تک تبدیل کر ڈالا وہ کیوں کر ایک ایٹمی قوت کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

کسی کی مخالفت یا حمایت سے بالاتر ہو کر ایک عام پاکستان یہ سمجھ رہا تھا کہ روایت چل نکلی ہے کہ شاہ و گدا ایک قطار میں آگئے ہیں، صرف گیلانی و اشرف ہی نہیں ہر حکمران کٹہرے میں لایا جائے گا۔ مگریہاں تو لنگوٹ ہی ایسے کسے گئے کہ کبھی بھی کھل سکتے ہیں۔ وہ ملک کا نظام سنبھالیں گے جو اخباروں کو اطلاعات کا ذریعہ اور تاریخ ثابت نہ کر پائے اور پکوڑوں کے چھابے میں ان کی قسمت مان لی۔ نہ جانے وہ وکلاء کیسے ہیں، وہ رہنما کیسے ہیں جن کی نظروں سے اخباری تراشوں، میڈیا کی خبروں پہ از خود نوٹس نہیں گزرے۔ میں داد دیتا ہوں حکومتی جماعت کی لیگل ٹیم کو کہ انہوں نے ایسے داؤ پیچ کھیلے ہیں کہ مخالفین کی سٹی گم کر دی ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اگر اب کچھ نہ ہو پایا تو کبھی کچھ نہیں ہو گا۔ مگر یہ بھی جانتے ہیں سب کہ جس انداز سے پوری اپوزیشن کیس لڑ رہی ہے اس سے تو واقعی بہتر ہے کہ جلد سے جلد فیصلہ ہو جو بھی ہو۔
میڈیا میں بیانات، انٹرویوز، پریس کانفرنس۔۔۔ ان سب سے خلاصی ہوتی تو شاید ثبوتوں کی طرف دھیان دیا جاتا کہ بھئی عدلیہ تقریروں کی روشنی میں فیصلے کرنے سے رہی، فیصلے ثبوتوں پہ ہوتے ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ تقریروں میں موجود تضاد کو بھی پوری اپوزیشن مل کر بھی اپنے حق میں استعمال نہیں کر پائی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہہے کہ کمزور فریق کے مقدمہ ہار جانے سے انصاف کی ہار نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ ان لوگوں کی ہار ہو گی جنہوں نے سارا زور صرف سیاست پر رکھا اور حقیقت سے پردہ اٹھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments