جنگ مسئلے کا حل نہیں، ایک کشمیری کی پکار


حفصہ مسعودی

\"hafsa-masoodi\" ٹی وی پر نیوز کاسٹر کی دہشت پھیلانے والی آواز گونج رہی تھی ’’لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ، پاکستانی فوج نے منہ توڑ جواب دیا‘‘ فائرنگ کا سن کر میرا بچپن سامنے کھڑا ہو جاتا ہے جس کو دو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ خوف اور درد۔

یہ لفظ شاید پڑھنے والوں کے لئے آسان ہوں لیکن وہ وقت جو وادی نیلم میں گزارا ہے یہ دو لفظ ہم نے کیسے جھیلے ہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر’’بلا اشتعال فائرنگ اور دندان شکن جواب‘‘  کے الفاظ سنتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بولنے والوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ سہنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ میں سوچتی ہوں مرنے مارنے کی باتیں کرنا ان کے لئے اتنا آسان کیوں ہے؟ ان کو خوف آتا ہے نہ درد محسوس ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ میرے لفظ کہیں اثر کریں گے یا نہیں لیکن میں اس خوف اور درد کو پھر بھی لکھنا چاہتی ہوں۔

وادی نیلم آزاد کشمیر کا شمالی علاقہ مظفرآباد سے 30 کلو میٹر شمال میں نوسیری سے شروع ہونے والی یہ وادی گریس پر ختم ہوتی ہے۔ وادی کا ایک بڑا حصہ لائن آف کنٹرول پر واقع ہے جو انڈین فائرنگ کی براہ راست رینج میں ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ اس کی ایک طویل سڑک جو اس کو دارالحکومت مظفرآباد سے ملاتی ہے تقریباً پورے کی پوری انڈین توپ خانے کی رینج میں ہے۔ سرحدوں پر جب حالات خراب ہوتے ہیں وادی کو شہر سے ملانے والی یہ واحد شاہراہ بند ہو جاتی ہے اور وادی کے دو لاکھ مکین دنیا سے پوری طرح کٹ جاتے ہیں۔ پھر خوف، درد اور بے بسی ہوتی ہے جس میں میرا پیارا بچپن کھو گیا۔
مجھے یاد نہیں کہ فائرنگ وادی نیلم میں کب شروع ہوئی تھی لیکن گھر والے بتاتے ہیں کہ پہلی بار فائرنگ کی آواز سن کر میں بے ہوش ہو گئی تھی اور اس کے بعد بھی جب بھی فائرنگ ہوتی تھی اکثر بے ہوش ہو جایا کرتی تھی۔ میں اپنے خاندان کی سب سے بزدل لڑکی تھی۔ میرے والدین اساتذہ تھے اس لئے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں سکول ضرور جانا پڑتا تھا اور کئی بار ایسا ہوتا کہ ہم سکول کے صحن میں بیٹھے ہوتے اور بمباری شروع ہو جاتی۔ ہم کتابیں بستہ تختی پھینک کر گھروں کو بھاگتے۔ اگر بھاگ بھی نہیں پاتے تو کسی قریبی جانوروں کے باڑے میں گھس جاتے یہ ہمارا معمول تھا۔ سکول کے لئے بھیجتے ہوئے میری ماں کے کیا احساسات ہوتے تھے وہ نہیں معلوم لیکن ہم خوف کے اس ماحول میں کس طرح پڑھتے تھے یہ آج تک ذہن سے محو نہیں ہوا۔ جب کسی چیز کے زور سے گرنے کی آواز سن کر بھی ایسا لگتا تھا فائرنگ شروع ہوئی ہے اور اگلا شکار اس کا ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ جتنی دیر فائرنگ رہتی تھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ ڈر کے مارے منہ چھپا لیں یا ساتھ بیٹھے پیاروں کو ایک بار پھر دیکھ لیں شاید دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہو۔ ایک بار مر جانا آسان ہوتا ہے لیکن ہر دوسرے دن گھنٹوں موت کا انتطار کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
میرا گاؤں انڈین تنصیبات کے بالکل سامنے تھا جن جگہوں پر سب سے پہلے فائرنگ شروع ہوتی تھی وہ ان میں سے ایک تھا۔ ایک بار شدید فائرنگ ہوئی میں بار بار بے ہوش ہو جاتی تھی۔ اماں جی نے مجھے ماموں کے گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا وہ گاؤں اس وقت تک فائرنگ رینج سے باہر تھا۔ میں چھوٹی تھی لیکن مجھے یاد ہے کہ والدین کو موت کے منہ میں چھوڑ کر محفوظ جگہ کی طرف جانا اس وقت بھی میرے لئے مشکل ترین فیصلہ تھا۔ جہاں تک والدین نظر آتے رہے روتی رہی تھی۔
ایک اور واقعہ اسی طرح کی شدید بمباری ہوئی انڈین فائرنگ کرتے وقت ہسپتالوں اور سکولوں کو خاص طور پر نشانہ بناتے تھے۔ اس بار ایک بڑا بم ہمارے سکول کے صحن میں آکر گرا جس سے ہیڈ ماسٹر صاحب سمیت تین طالب علم شہید ہوئے کئی زخمی ہوئے۔ ان زخمیوں میں سے دو عمر بھر کے لئے معذور ہوئے ان کی ٹانگ کٹ گئی تھی اس لڑکے کے جسم میں شیل پیوست ہو گیا تھا۔ جو اس نے چھ ماہ بعد خود اپنے جسم سے نکالا تھا۔ علاج کے لئے مظفرآباد آنا ممکن نہیں تھا۔
فائرنگ کے وقت لوگ گھروں کے ساتھ بنے زیر زمین بنکرز میں گھس جاتے تھے یا پھر جانوروں کے باڑوں میں جو نچلی منزل پر ہونے کی وجہ سے نسبتاً محفوظ ہوتے ہیں۔ میرے والد صاحب سانس لینے میں دشواری ہونے کے بہانے سے بنکر یا باڑے میں نہیں جاتے تھے۔ جتنی دیر فائرنگ رہتی میں باڑے کی سب سے پچھلی والی’’ کھرلی ‘‘میں ہوتی تھی لیکن مجھے یاد ہے کہ اباجی صحن میں بیٹھ جاتے اور میری ماں انتہائی ڈر کے باوجود شوہر کو باہر چھوڑ کر اندر نہیں جا سکتیں تھیں دروازے میں کھڑی رہتی تھیں۔ ہماری ایک پروسن اسی باڑے کے دروازے پر بم کے شیل لگنے سے شدید زخمی ہو کر گر گئی۔ وہ مرتے وقت پانی مانگ رہی تھی اور اس کے ساتھ والی عورت نے بعد میں بتایا کہ بمباری اس قدر مسلسل تھی کہ وہ گھر کے اندر جا کر پانی نہیں لا سکتے تھے اس لئے مجبوراً اس کے منہ میں مٹی کی چٹکی ڈالی تھی۔ کیا فیس بکی جہادی اور جنگ کے عاشق اس اذیت کا اندازہ کر سکتے ہیں؟
جنگ زدہ علاقوں میں پلنے والے بچوں کا بچپن عجیب ہوتا ہے، ان کی خوشیاں خوشیاں نہیں ہوتیں۔ ان کے دکھ دکھ نہیں ہوتے بس وہی ہوتا ہے خوف اور درد۔ گاؤں کے لوگ مویشیوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ہمارا بکری کا بچہ جو سب کا لاڈلا تھا فائرنگ سے مر گیا تو کئی روز تک بھائی نے کھانا نہیں کھایا۔ اس سے ایک اور واقعہ یاد آیا فائرنگ سے ایک شخص کا بیل ہلاک ہو گیا، فائرنگ تھمی تو اس کو دیکھنے کے لئے لوگ اکٹھے ہوئے۔ لوگوں کے اس ہجوم پر دوبارہ بم گرا اور چار لوگ شہید ہو گئے۔ اس وقت جہاں دس سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوتے، جہاں سرخ یا سفید کپڑا نظر آئے یا جہاں رات کو کوئی روشنی جلتی نظر آئی فائرنگ شروع ہو جاتی تھی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ سرخ سفید کپڑے کا یا رات کو معمولی سی روشنی پر فائرنگ کرنے کا کیا جواز تھا۔ آج تک وجہ سمجھ آئی ہے تو صرف خون کی پیاس یا طاقت کا نشہ۔

مجھے ککو کی آواز سن کر ککو کو ڈھونڈنے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ تتلیاں پکڑنے کا اور اس طرح کے کئی بچپن کے شوق، فائرنگ کے ڈر سے میں کسی ایک سے بھی محظوظ نہ ہوسکی۔ کچھ دن پہلے ایک دوست نے کہا تھا کہ وادی نیلم کے لوگ اپنی ہر مشکل کو فائرنگ سے منسوب کرتے ہیں تو یہ بالکل سچ ہے، ہر مشکل کی تان فائرنگ پر ہی ٹوٹتی ہے۔
لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے اس لئے شادی تو دھوم دھام سے ہونے کا سوال ہی نہیں۔ جنازے بھی جنازے نہیں ہوتے تھے رات کے وقت دس بارہ لوگ اکٹھے ہو کر اپنے پیاروں کو خاموشی سے دفن کر دیتے اور بین تک نہیں کر پاتے تھے۔
وادی نیلم کو مظفرآباد سے ملانے والی شاہراہ بند ہوگئی تو پاک فوج نے بہت محنت کر کے ایک بائی پاس روڈ پہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپر سے نکالی۔ کچھ عرصہ بعد وہ بھی فائرنگ رینج میں آگئی۔ دن میں اس پر گاڑی چلنا ناممکن ہو گیا ہاں البتہ رات میں وہاں سے گاڑیاں لائٹس آف کر کے بغیر کسی ہارن کے گزرتی تھیں۔ وہ سڑک موت کا کنواں تھی۔ ذرا سی غلطی سے کئی ہزار فٹ گہری کھائی میں گر جانے کا اندیشہ جہاں سے لاش واپس ملنے کی بھی امید نہ ہو اور کئی گاڑیاں اس طرح کے حادثے کا شکار ہوئی بھی تھیں۔ راتوں کو روشنی گولہ چڑھا کر لوگوں کو تاک کر مارنا انڈین آرمی کا محبوب مشغلہ تھا۔ اباجی نوکری کی وجہ سے بار بار یہ سفر کرتے۔ ایک بار ان کے شہید ہونے کی خبر پھیل گئی۔ مظفرآباد میں ہمارے رشتہ داروں کے گھر میں کئی دن سوگ رہا۔ کچھ دن بعد ابا جی کا ان رشتہ داروں سے ملاقات کا سماں قابل دید تھا۔ جب بھی اباجی یا کوئی بھی اور اپنا سفر میں ہوتا تو ہم سب پل پل جیتے مرتے تھے۔
سردیوں میں یہ سڑک بھی مکمل طور پر بند ہو جاتی۔ تنگ آکر میرے والدین نے مظفرآباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ ایک خوبصورت گھر، مال مویشی، زمینیں، سیبوں کا ایک بڑا باغ اور پھر گاؤں کی اپنائیت چھوڑ کر اجنبی جگہ منتقل ہونے کا کیا درد تھا وہی جان سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔ میرے بھائی نے جانے کہاں سے سنا ایک جملہ گھر کے دروازے پر لکھ دیا تھا جس کو میری ماں دہرا کر رویا کرتی تھیں ’لک بن کے کھٹیا تے ہتھ بن کے سٹیا ‘ یعنی کمر باندھ کر محنت کر کے کمایا اور ہاتھ باندھ کر چھوڑ دیا۔
ہمیں اس وقت پتہ نہیں تھا کہ فائرنگ کیوں ہوتی ہے، انڈیا پاکستان کی کشمیر کی وجہ سے دشمنی ہے یا انڈیا پاکستان کی دشمنی کا ملبہ کشمیر پر گرتا ہے لیکن جنگ بندی لائن کے اطراف کے لوگوں کی زندگی جہنم بنی ہوئی ہے۔ پچھلے سال مقبوضہ کشمیر سے میرے کزن آئے تھے۔ شکوے والے سے انداز میں بولے ’’پاکستان آرمی کی فائرنگ سے میرا ایک دوست فوت ہوا تھا مجھے اب بھی یاد آتا ہے ‘‘۔ میری پاکستانی رگ پھڑکی تو فوراً دفاع کیا ’لالا ہمارے کتنے بندے وہاں کی فائرنگ سے مرے ہیں ‘ لیکن لالا کے جواب نے مجھے شرمندگی میں ڈال دیا۔ وہ بولے ’انڈین آرمی نے ہمارے بھی بہت لوگ مارے ہیں لیکن جو پاکستان کی گولی سے مرا ہے اس کا دکھ الگ ہے، پاکستان سے ہم یہ توقع نہیں کرتے‘۔ سوچتی ہوں کہ بچپن میں ہم پاکستانیوں کی طرف سے فائرنگ کئے جانے پر بہت خوش ہوتے تھے، رحمٰن پوسٹ سے کی جانے والی توپ کا فائر کچے گھروں کو لرزا کر گذرتا تھا لیکن ہم پھر بھی اس فائر پر تکبیر کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ اس بات سے بے خبر کہ اس طرف بھی اپنے ہی مر رہے ہیں اور اب جب سمجھ آتی ہے تو خیال آتا ہے ‘اس طرف بھی خون ہی بہتا ہے کسی کو احساس کیوں نہیں ہوتا‘۔

بچپن میں یہ ادراک نہیں تھا کہ یہ وسائل کی لڑائی ہے یا سٹیٹس کو کی؟ لیکن ایک سوال بار بار ذہن میں آتا تھا کہ ہمیں کیوں مارا جا رہا ہے؟ آج بھی بچے وہاں سوچتے ہوں گے کہ ہمیں کیوں مارا جا رہا ہے؟ ہمارا بچپن خوف کے سائے میں کیوں گذر رہا ہے۔ دل کرتا ہے پکار پکار کر کہوں، جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ پتہ نہیں یہ اتنے بڑے بڑے دماغوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی۔ اتنا اسلحہ پھونک دیا، اتنے بندے مارے، اتنی دہائیاں گذریں، اتنی زندگیاں تباہ ہوئیں، اتنے بچپن چھنے مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ جی چاہتا ہے رو کر کہوں، مجھے تحفظ چاہئے لیکن اپنے بھائی کے سر کی قیمت پر نہیں چاہے وہ اس پار بستا ہو یا اس پار۔ اور پھر درخواست کروں

’ہمیں زندہ رہنے دو، ہمیں ہنستا رہنے دو ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حفصہ مسعودی کا تعلق آزادی کے سرحدی علاقے وادی نیلم سے ہے۔ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے (Peace and Conflict Studies ) میں ایم فل کیا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments