سیاسی تجربات کی لیبارٹری: سندھ


انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ “کسی بھی کام کو تب تک نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا کام نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ اس میں مطلوبہ احتیاط و خبرداری کے ساتھ کام نہ لیا گیا ہو”۔ سندھ کی ملکیت کے دعوے داروں نے کبھی اس خطے کی خوشحالی و ترقی یا بہتری کے لئے کوٸی حکمتِ عملی بناٸی یا اس کے لئے کبھی کوٸی قدم اٹھایا ہے؟

ایک معمولی قسم کی روایت قاٸم رکھی ہوٸی ہے کہ سندھ کے نادار، مسکین و مظلوم عوام کے دکھ درد کا ناجاٸز فاٸدہ اٹھا کر ان پر جھوٹی ہمدردیاں جتا کر پلک جھپک میں ان کے پیروں تلے انہی کی سرزمین یوں کهينچ لی جائے کہ انہیں بے زمين يا جلاوطن، اپنی ہی دھرتی پر اجنبی ہونے کا واهمہ تک نہ پڑے۔ مختلف طریقوں، چالاکيوں، چالبازیوں اور حرفتوں سمیت ایک روایت یہ بھی روا رکھی گٸی ہے کہ اب دھرتی کے نعروں اور جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کے ساتھ، ان کے ثقافتی، معاشرتی و تہذیبی احساسات کو جذباتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے انہیں ہلکا سا جھنجھوڑا جائے اور پھر دھیرے دھیرے کچھ مزید زمین بھی اُچک لی جائے۔

 اجرکی ماسک اور نمبر پلیٹیں بنا کر سندھی عوام کے مالکانہ حقوق کو کمزور کر کے ان کی زمینوں کو اینٹھنا، یہ ہے سندھ حکومت کا کارنامہ اور سندھیوں کے ساتھ ہمدردی۔ ان سندھ پرستوں اور سندھ کے رکھوالوں نے سندھ کا دیوالیہ ہی نکال دیا ہے۔ تھانے نیلام، جیل خانہ جات و انصاف نیلام، امن و امان کی صورتحال ابتر سے ابتر، چوری ڈاکے رہزنی و قتل و غارت گری سرِعام، ماورائے عدالت اپنے ہی عوام کو اغوأ کرکے گم کردینا، زمین نیلام، پانی کی چوری، پتھر کی چوری، دریا کا پانی فروخت، زمیں ریگستاں، بڑی بڑی اسکیمیں، ذوالفقارآباد، بحریا ٹاٶن، ڈی-ایچ-اے اور گرین سٹی جیسے اژدھا منصوبوں کی تعمیرات، سندھ دشمنوں کی چمچاگیری کرنے کی خاطر، سندھیوں کے منہ سے نوالہ چھین کر ان کے ازلی دشمنوں کے منہ میں ڈالنا، یہ کیسی سندھ اور سندھیوں کے ساتھ ہمدردی و دوستی ہے؟

سندھی عوام کے اعتماد کو جس طرح نچوڑا گیا ہے اور جس طرح عوام کی تکالیف میں روز بروز بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے، سندھی عوام اسے کسی طور کبھی بھی بھلا نہیں پاٸیں گے۔ دیمک کی مانند چمٹے ہوئے سندھ کے سجنوں نے سندھ کو تباہ و برباد اور کھنڈر بنا کر اسے ختم کرنے میں رتی برابر کوٸی کسر نہیں چھوڑی۔

یہاں یہ بات تاريخ کی گواہی میں واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے کہ اس قوم پر زمانہ ماضی سے آج تک کٸی مصیبتیں، تکالیف، دکھ درد اور انتہاٸی خطرناک آزماٸشی لمحات بھی آئے، اس قوم کو روندنے اور نیست و نابود کرنے کی کٸی بار سازشیں بھی کی گٸیں، باوجود اس کے، اس قوم نے اپنی مستقل مزاجی، ثابت قدمی، دوراندیشی و بہادری کے ساتھ ان سازشوں کا ڈٹ کر ناصرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں ناکام بھی کیا ہے اور ہر حال میں سرفروشی جان نثاری وطن پرستی و بے جگری اور بلند حوصلے و ہمت کے ساتھ ڈٹ کر سازشوں کاپردہ چاک بھی کیا ہے۔

سندھ، سندھیوں کا ہے اور سندھی سندھ کے … اس دھرتی کے ساتھ ان لوگوں کا فطری، احساساتی، ثقافتی، تہذیبی و تمدنی و جذباتی طور پر اپنی پہچان کا ہزارہا برس کا اٹوٹ رشتا ہے۔سندھیوں کا جینا مرنا، خوشی و غم، دکھ و سکھ تمام کے تمام ازلی طور پر باہم جڑے ہوئے ہیں، انہیں جدا کرنے کا تصور بھی خام خیالی ہے، مشترکہ قومی، عوامی، جمہوری جدوجہد ہو یا پھر چاہے علمی ادبی میدان میں کھڑے رہ کر بقائے سندھ کی بات ہو، سندھی عوام نے اپنی دھرتی کا سر کبھی جھکنے نہیں دیا۔

دن دہاڑے ديوانے کا خواب دیکھنے والے ناسمجھ، نااہل و سازشی سندھ دشمن عناصر حکمران اور “اصلی تے وڈا”، یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لیں کہ “سندھ کوٸی ممبٸی کا کیک نہیں”کہ جب اور جس وقت جو بھی چاہے آکر ہمیں الٹے سیدھے اور غیرمنطقی حوالے و دلاٸل دے کر سندھ کو ٹکڑے کرنے کے منصوبے تیار کرے، جس پر عمل کرانے کے لئے چند دھشتگردوں کے سرغنوں اور چند غدار وڈیروں کو ساتھ ملا کر کبھی وفاق کے نام پر تو کبھی ریفرنڈم کی بانسری بجا کر، بے وقت کی راگنی گا کر ہم سے سندھ کو بانٹنے کی ڈرامے بازیاں کرے یا فتوے صادر فرمائے اور سندھی عوام دم سادھے خاموش و چپ چاپ اپنی گردنیں کٹتی دیکھتے رہ جاٸیں گے۔

حکمران نوشتہ دیوار غور سے پڑھ لیں کہ سندھ ہی نے پاکستان بنایا تھا مگر جس سندھ نے پاکستان کو بنایا تھا اسے دیوار کے ساتھ لگانے سے گریز کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).