کوئٹہ کے وکلا پر خودکش حملے کا چوتھا سال – کیا کچھ ہوا؟



آج 8 اگست ہے چار سال قبل 2016 میں گورنمنٹ ہاسپیٹل میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر پر قاتلانہ حملے کے بعد جمع ہونے والے وکلاء پر فائرنگ اور خود کش حملہ ہوا جس میں 54 وکلاء سمیت 74 سے زائد لوگ قتل جبکہ 150 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

ہمارے ملک میں انسانی جانوں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اگر معاملہ بلوچوں اور پشتونوں کا ہو تو پھر بالکل ہی نہیں اور متاثرین کی مالی امداد اور شہید کہ کر موت کو گلوریفائی کیا جاتا ہے اور پھر ایک نیا سانحہ ہونے کا انتظار۔

8 اگست وہ دن ہے جس دن بلوچستان سے پڑھے لکھے لوگوں کو منظم طریقے سے قتل کر کے شعور کے خاتمے اور بلوچوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔

حسب روایت اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے متعدد سیاستدانوں سمیت اس وقت کے آرمی چیف نے بھی اس معاملے میں بھارت کے ملوث ہونے کی بات کی اور اس حملے کی کڑیاں سی پیک سے ملائیں لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے سو موٹو نوٹس پر بننے والے جوڈیشل کمیشن کے واحد رکن جسٹس قاضی فائز عیسی (جو کہ آج کل مقتدر حلقوں کی نظروں میں بہت کھٹک رہے ہیں ) نے جو رپورٹ لکھی وہ کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہے۔

کمیشن نے اس جگہ کی نشاندہی کی تھی جہاں خودکش جیکٹوں اور دھماکہ خیز مواد کی تیار گیا۔ کمیشن نے دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کی نشاندہی کی جس کی روشنی میں کاروائی کی گئی اور پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

کوئٹہ کمیشن رپورٹ کے مطابق 1 جنوری 2001 سے لے 17 اکتوبر 2016 تک پاکستان میں 17503 دہشتگرد حملے ہوئے جو کہ اوسطا تین حملے روز کے بنتے ہیں۔

رپورٹ میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم تنظیموں پر پابندی اور ان کے ارکان کے خلاف کاروائی کرنے پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

مزید یہ ہے وزارت داخلہ کو متعدد بار جماعت الاحرار ( ایک تنظیم جو بلوچستان میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے ) پر پابندی لگانے کے لیے خطوط لکھے گئے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کمیشن نے ریمارکس دیے کہ باوجود اس کے کہ وفاقی حکومت اتنی طاقتور ہے کہ دہشتگرد تنظیم پر پابندی لگا سکے ”اہم حکومتی عہدوں پر بیٹھے لوگ کسی کے زیراثر نظر آتے ہیں ’۔

رپورٹ میں سب سے تنقیدی ریمارکس وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی ملت اسلامیہ اور سپاہ صحابہ کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی سے 21 اکتوبر 2016 کی ملاقات کے حوالے سے تھے۔

کمیشن نے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو انسداد دہشتگردی کے لیے حکمت عملی ترتیب دینے، دہشتگردی سے متعلقہ موضوعات پر تحقیق، اور بین الاقوامی ایجنسیوں سے روابط میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

بجائے اس کہ ریاست کی طرف سے سنجیدگی مظاہرہ کیا جاتا الٹا حقائق سے پردہ اٹھانے اور ریاست کو درست سمت کا راستہ دکھانے والے معزز جج کو ہی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج چار سال بیت چکے ہیں نہ تو متاثرین کو مالی امداد دی گئی نہ ہی کالعدم تنظیموں کی سرپرستی ختم ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments