جا چھوڑ دے میری وادی، آزادی!


اگست کا مہینہ آیا اور کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہوئے سال ہوا تو مودی جی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

جواب میں پاکستان نے ایک گانا جاری کیا جس کے بول کچھ یوں تھے،’جا چھوڑ دے میری وادی‘ اور ساتھ ہی ساتھ ایک نقشہ جاری کیا جس میں نہ صرف کشمیر کو بلکہ جوناگڑھ اور مناودر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا۔

اس کے علاوہ کئی اہم مقامات پہ’سری نگر‘ کے بورڈ بھی لگائے گئے اور اسلام آباد کی ’کشمیر ہائی وے‘ کو ’ سری نگر ہائی وے‘ بنا دیا۔ اس طرح ان دونوں ملکوں نے جنگ جنگ کھیلی اور اب اگلا پوراسال دونوں طرف کے عوام اس کھیل سے جی بہلاتے اور اپنے حقیقی مسائل کو بھولے رہیں گے۔

جہاں تک معاملہ ہے بابری مسجد کا تو یہ فیصلہ مودی جی کو ہی مہنگا پڑے گا۔ ہندوستان میں ایک بڑی اقلیت کے طور پہ مسلمان ایک پریشر گروپ ہیں۔ فی الحال وہاں کے مسلمان غلط پالیسیوں پہ چپ ہیں۔

مگر چین اور پاکستان دو ہمسایوں سے دشمنی بھی رکھنا اور اپنے ملک میں ایک اقلیت کو پریشر گروپ کی حیثیت تک پہنچا دینا کوئی دانش مندی نہیں۔ بیرونی طاقتیں ان پریشر گروپس کو آسانی سے استعمال کر جاتی ہیں۔

بابری مسجد کا معاملہ جہاں سالہا سال سے التوا کا شکار تھا وہاں اب بھی رہتا تو کوئی خاص فرق نہ پڑتا لیکن اب مودی جی نے خود پر نہ صرف مسلم ووٹ بنک کے دروازے بند کر لیے ہیں بلکہ اعتدال پسند ہندو ووٹ بنک کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور ملک میں اندرونی انتشار کے بیج بھی بو دیے ہیں۔

مودی کی اس وقتی مگر غلط چال سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ الٹا دو قومی نظریے اور مطالعہ پاکستان کے کئی ابواب پہ مہر تصدیق ہی ثبت ہوئی۔ دوسری طرف پاکستان کے نغمہ جاری کرنے سے کشمیریوں کو دھیلے کا فائدہ نہ ہوا۔ نہ وہاں سال بھر سے جاری کرفیو اٹھا نہ ان کے کسی اور درد کا مداوا ہی ہو پایا۔ نغمے گانے سے اگر مسائل حل ہو پاتے تو ہم میڈم نور جہاں اور لتا جی کے ہوتے آج نیو کلیئر ہتھیاروں کے ڈھیر پر نہ بیٹھے ہوتے۔

نیا نقشہ جو کہ دراصل پرانا ہی نقشہ ہے، سوائے سوشل میڈیا پہ ہنسی ٹھٹھول اور ’میم بازی‘ کے کسی کام نہ آیا۔ اخلاقی یا بین الاقوامی سطح پہ اگر نقشوں، دعووں اور بیانات کی کچھ اہمیت سمجھی جاتی تو آج دنیا اس حال میں نہ ہوتی۔

اپنی سڑکوں پہ سری نگر تک کا فاصلہ لکھ دینا بھی کوئی ایسا تیر نہیں کہ کسی کے کلیجے کے پار ہو جائے۔ لاہور میں سالہا سال سے ’فیروز پور روڈ‘ موجود ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک روز فیروز پور فتح کر لیں گے؟ دونوں ملکوں کے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ کہیں مذہب کا لالی پاپ دے کر تو کہیں گانے وانے سنا کر عوام کو بہلا رہے ہیں۔ ان ملکوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ کبھی اس پہ بات نہیں ہوئی۔

یہ دونوں ملک ایسے جڑواں بچے ہیں جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں، انہیں اناڑی پن سے کھینچ کر الگ تو کر دیا گیا مگر یہ مکمل طور پہ الگ نہ ہو پائے اور ایک زخمی جسم کی طرح پڑے اپنا ہی ناک منہ نوچا کرتے ہیں۔

ان دونوں ملکوں کی حیثیت صرف دو پڑوسی ممالک کی ہی نہیں ہے۔ تقسیم کے وقت آبادی کی لشتم پشتم نقل مکانی نے جو مسائل اٹھایے وہ فقط مالی اور سیاسی ہی نہیں جذباتی بھی ہیں۔

کاش یہ نقشہ بازیاں اور آنیاں جانیاں دکھانے کی بجائے دونوں ممالک کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھیں، اپنے مسائل کو اپنی فہم و فراست اور عوام کی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے حل کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مجھے خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں چین جو کہ مستقبل کی سپر پاور بنتا نظر آتا ہے، پاکستان کو اپنی پراکسی کے طور پہ استعمال کر سکتا ہے۔

پاکستان

اکہتر کی جنگ کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان امریکی پراکسی بنا تاکہ جنگی سامان حاصل کر کے اور مجاہدین کے جتھے بنا کر لگے ہاتھوں انڈیا کے دانت بھی کھٹے کیے جائیں۔

ساتھ کے ساتھ یہ خوف بھی تھا کہ اگر یہ کام ہم نہیں کرتے تو انڈیا کر گزرے گا۔ نقصان بہر حال پورے خطے کا ہوا۔ جنگ اور وہ بھی ہمسایے سے جنگ کسی بھی طور فائدہ مند نہیں ہوتی۔ خاص کر جب دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اور عقل سے پیدل ارباب حل و عقد میں اپنی اپنی جگہ خود کفیل ہوں۔

سن 47 سے لے کر جتنا خون آج تک بہا، خدا کرے کہ آزادی کی دیوی، یہ بھینٹ لے کر ہی راضی ہو جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان کسی طرح معاملات سلجھ جائیں۔ کیونکہ جب تک یہ معاملات نہیں سلجھتے، نہ وہ آزاد ہو پائیں گے نہ ہم۔

اگست کا مہینہ آتا رہے گا اور ہم اسی طرح اپنا ہی منہ نوچتے، اپنی ہی بوٹیاں کاٹتے سرحد کے آر پار ایک ایسا جشن مناتے رہیں گے جس میں سب کچھ ہو گا مگر آزادی کہیں نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).