صحافی ہوں، کوئی چورن بیچنے والا نہیں!


صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے ۔ ویسے تو ہر طرح کی رپورٹنگ صحافت کے زمرے میں آتی ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیٹ رپورٹر سے لے کر تحقیقاتی صحافی معلومات کی رسائی کے لئے قریبا یکساں طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تاہم بیٹ رپورٹر کو کسی خصوصی خبر کی کھوج کے لئے تحقیقاتی صحافی کی طرح مہارت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، یعنی ایسے بیٹ رپورٹرز جو کسی سیاسی جماعت یا سرکاری ادارے کی رپورٹنگ کرتے ہوں، انہیں عمومی طور پر تمام سیاسی مذہبیجماعتوں، سیاسی، معروف یا سرکاری شخصیات کی خبریں بیانات ای میل واٹس ایپ پر ویسے ہی مل جاتی ہے، بیٹ رپورٹر کو کہیں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، تاہم تعلقات و پیشہ وارانہ ذمے داری کے وسعت کے لئے جانا اور سوالات کرکے خبر کو اہم بنانا اہمیت رکھتا ہے۔

تحقیقاتی صحافت کھوج خبر کی تلاش کے لئے مختلف طریقوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جن پر مہارت حاصل کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ حقائق کی تلاش کے لئے ایسے معاملات کو منکشف کرنا جسے عوام یا پھر ارباب اختیار سے (نے ) چھپایا ہو، اس کی مکمل آگہی کے حصول کے لئے تحقیقاتی عمل میں ذرائع و مصدقہ ریکارڈ کا حصول اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تحقیقاتی صحافت میں تنقید کا عنصر غالب ہوتا ہے، کیونکہ یہی وہ عمل ہوتا ہے جو صحافی کو کھوج کے لئے اکساتا ہے۔ کرپشن، فنڈز میں خرد برد، طاقت و اختیارات کے ناجائز استعمال، ماحولیاتی مسائل، نظام صحت، عوامی مفاد عامہ کے اداروں اور دیگر معاملات کا گہرائی کا جائزہ لینا اور اس کی اصل وجوہ تلاش کرنا تحقیقاتی صحافت کے لئے ناگزیر ہے۔

ذاتی رائے میں کسی ادارے، جماعت یا شخص کی مصنوعی کارگزاری یا جھوٹی تعریف و بلند بانگ دعوؤں کی مداح سرائی زرد صحافت کہلاتی ہے۔ امریکی یونیورسٹی میں تحقیقاتی صحافت سے وابستہ برانٹ ہوسٹن کا کہنا ہے کہ ”تحقیقاتی صحافت اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ چیزوں کو نئے انداز میں کرنے کا فن سکھاتی ہے جو بعد ازاں روزمرہ رپورٹنگ کا حصہ بھی بن جاتے ہیں جس کے نتیجے میں صحافت کے پورے شعبے کا معیار بڑھانے میں بھی تحقیقاتی صحافت کا کردار ہے“ ۔

صحافت سے وابستہ صحافیوں کو کے لئے نئی بات نہیں ہے کہ خبر کی اشاعت یا نشر کیے جانے پر مخالفین کی جانب سے خبر کو روکنے اور آئندہ احتیاط برتنے کی سخت وارننگ دی جاتی ہے، بعض اوقات تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور قیمتی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ صحافت سے وابستہ کوئی شخص مقدس گائے نہیں، تاہم اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اقدار و روایات کی پاسداری کو روندے جانے کی اجازت کوئی مہذب معاشرہ نہیں دیتا۔

میڈیا ہاؤسز کا دوسرا اہم شعبہ مارکیٹنگ کا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو ادارے سے وابستہ ہونے کے باعث ایک ایسا برانڈ لے جاتا ہے جسے مارکیٹ میں فروخت کیا جاسکے۔ مارکیٹنگ کے اصول میں مبالغہ آرائیاں اور خوشامد پرستی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے کیونکہ انہیں ”کلائنٹ“ کی ناراضگی کا خوف چین سے سونے بھی نہیں دیتا۔ یہ کلائنٹ سرکاری، سیاسی و نجی شخصیات، عوامی مفاد عامہ سے وابستہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ پروفیشنل جرنلسٹ کے لئے اس امر کو قبول کرنا بہرحال مشکل ہوتا ہے کہ وہ صحافی کے بجائے سیلز مین بن کر قلم کا استعمال کرے۔

سیلز مین اور جرنلسٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ صحافی کسی بھی پلیٹ فارم پر جاکر اظہار رائے کی اہلیت رکھتا ہے، اب یہ صحافی پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی رپورٹنگ کرتا ہے، اس کا مقصد ذاتی مفاد ہے یا عوامی کی تکالیف کو ارباب اختیار تک پہنچاکر اپنا فرض ادا کرنا۔ صحافت مقدس پیشہ ہے، جسے بدنام کرنے میں ایسے عناصر کی بڑی تعداد بھی ہے جو فروعی مفادات کے لئے چند پیسوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرنے میں ذرہ برابر تامل نہیں برتتے۔

ہمارے سامنے ان گنت ایسے صحافی ہیں جو بسوں میں لٹک کر آتے تھے اور مفادات کی قیمت وصولی کے بعد چند برسوں میں ان کی املاک و اثاثے ان کی تنخواہ سے ہزار گنا زیادہ ہیں۔ احتساب کرنے والے اداروں کو ایسے صحافیوں کو اپنے دائرہ تفتیش میں لانا ضروری ہے جو ہزاروں کی تنخواہ میں کروڑوں کی جائیداد بنا کر بیٹھے ہیں۔

مارکیٹنگ کرنا آسان ہے یا صحافت، ان دونوں شعبوں سے منسلک احباب میڈیا ہاؤسز میں سوتن کی طرح ہوتے ہیں، مارکیٹنگ سے وابستہ عملے کے سارا دار و مدار صحافیوں کی پیشہ وارانہ یا ذاتی تعلقات پر ہوتا ہے، پیشہ وارانہ تعلقات کے ساتھ کسی بھی صحافی کامعروف یا با اثر شخصیت سے قریبی تعلق بن جانا عام سے عمل ہے۔ مارکیٹنگ کا شعبہ، صحافیوں کے ان تعلقات کا، جو اس نے کئی برسوں کی شب و روز کی محنت سے بنائے ہوتے ہیں، فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح ان شخصیات تک رسائی دلائے۔ اختیارات کا خماربعض اوقات غلط فیصلے کرادیتے ہیں۔ یہاں مفادات کا ٹکراؤ بھی ہوتا ہے اور ادارے میں کرپشن و خرد برد کرنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

تحقیقاتی صحافی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن و خرد برد کو فوراً بھانپ لیتا ہے، اگر ایسا صحافی خود کرپشن میں ملوث ہوگا تو وہ مارکیٹنگ کے عملے کے ساتھ مل کر بد عنوانی کا ایک حصہ بن جائے گا۔ تاہم تحقیقاتی صحافی کی بڑی تعداد اپنے پیشے سے والہانہ عقیدت کے پیش نظر بلیک میلنگ کے گھٹیا عمل سے دور رہنا پسند کرتے ہیں اور اپنی روحانی تسکین کے لئے ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہیں، یقینی طور پر ان گنت ایسے صحافیوں کی مالی حالت کی خرابی و ناگفتہ بے حالات کی خبریں خود میڈیا کی بھی زینت بنتی ہے جو اظہر من الشمس اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ اگر مصائب میں گھرا صحافی، بد عنوانی یا زرد صحافت کے راستے پر گامزن ہوتا تو آج اس کی حالت ایسی نہیں ہوتی۔

صحافت سے وابستہ کسی بھی شعبے سے وابستہ فرد کے خلوص و جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ وہ رزق حلال کے لئے شعلوں پر قدم رکھ کر چلتا ہے، وہ اپنی پہچان، اپنی شناخت سے مقام بناتا ہے اور اسے بہت محنت، قوت و برداشت کا صبر الزما مرحلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ صحافی کوئی چورن بیچنے والا نہیں کہ کسی بھی چوراہے پر چادر بچھا کر بیچنا شروع کردے۔ دور جدید میں پیغام رسانی و اظہار رائے کے اتنے ذرائع دستیاب ہیں کہ ماضی میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ضرروت اس امر کی ہے کوئی بھی شعبہ ہو جب تک اس میں خلوص، ایمان داری اور پروفیشنل ازم نہیں ہوگا، وہاں اختلافات کے باعث ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جو یقینی طور پر کسی کے حق میں بہتر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).