مسیحی لوگ نعرہ تبدیل کریں


پشاور کے ندیم مسیح کے ناحق قتل پر مسیحیوں کے سوشل میڈیا احتجاج نے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ملک کی پارلیمنٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور لینا بھی چاہیے تھا کیونکہ ہم اقلیتوں نے آئین کے تحت تحفظ پارلیمنٹ اور اس کے ماتحت اداروں سے ہی مانگنا ہے۔ مگر جس طرح سے مسیحی ایم این اے صاحب نے پارلیمنٹ میں اس کیس کو پیش کیا کہ اس سے کم ازکم ایک چیز عیاں ہو گئی اب مسیحیوں کو تعصب کا نعرہ بدلنا پڑے گا۔ ایم این اے صاحب سے سپیکر صاحب نے ایشو پوچھا تو وہ صحیح طرح سے بتا نہ سکے اور مسئلہ کی مکمل معلومات لیے بغیر سوشل میڈیا کی ادھوری معلومات پر سپیکر کو بتا رہے ہیں کہ کیس اب کورٹ میں ہے۔ اب یہ بات تو غیر سیاسی لوگوں کو بھی پتہ ہے کہ جو مسئلہ کورٹ میں ہو اس پر پارلیمنٹ میں کوئی ایکشن نہیں ہو سکتا۔ ادھوری کی بجائے غلط معلومات اس لئے کہوں گا کیس ابھی تک بھی کورٹ میں نہیں ہے۔

مگرہم نے اور ہمارے بیرون ملک میں رہنے والے بھائیوں نے حسب عادت سپیکر صاحب کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کو تعصب کا ہیش ٹیگ لگا کر ویڈیوز وائرل کرنا شروع کردی اور اپنے ایم این اے کی نا لائقی کو تعصب کا مسئلہ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ جس کی تمام ذی شعور مسیحی لوگوں نے مذمت کی کیونکہ صاف نظر آ رہا تھا کہ قصور اپنا ہے۔

نالائقی کی ایک مثال اس سے پہلے بھی ان ہی ایم این صاحب کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی جا چکی جب انہوں نے بغیر کسی تیاری کے اپنے کسی نالائق دوست کے مشورے پر پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے لیے ایجوکیشن کوٹے کا بل پیش کیا جو کہ حکومتی جماعت کا ایم این اے کا بل ہونے کے باوجود کثرت رائے سے مسترد ہو گیا۔ دوبارہ وہی نعرہ تعصب۔

اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کی نمائندگی موجودہ تین ایم این اے کر رہے جن میں سے دو کا تعلق کا حکومتی جماعت سے ہے۔ ان دو ایم این ایز کی پارلیمنٹ کی کارکردگی دیکھیں تو ایک ایم این اے صاحبہ کے حصے میں سوائے وزیر اعظم کی تعریفوں کے کوئی بل، قرار داد، توجہ دلاؤ نوٹس حتی کہ کوئی قابل ذکر تقریر بھی نہ ہے۔ اب چونکہ انہوں نے آج تک پارلیمنٹ میں کچھ کیا ہی نہیں تو ان کے لئے تو سب اچھا ہی کہنا پڑے گا۔ دوسرے ایم این صاحب کی کارکردگی اوپر بیان کر چکا ہوں۔

ان مثالوں نے شکر ہے یہ عیاں کر دیا کہ ضرورت ہمیں اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی ہے۔ اور ان مثالوں کے تناظر میں ہم نو جونواں کو سیکھ لینا چاہیے اب تعصب کے نعرے کی نیچے پناہ نہیں ملے گی۔ اب ہمارے پاس مواقع ہیں آ گے بڑھنے کے اب گلے چھوڑیں اپنا محاسبہ کریں اور مواقع حاصل کریں۔ جاب کوٹے کو آ ج 11 سال ہوچکے ہیں مگر کسی بھی سال ہم مکمل طور پر اس کو پر نہ کر سکے۔ مگر جنہوں نے اپنی قابلیتوں کو بہتر کیا اور محنت کی آج وہ نوجوان تمام محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ سماجی رویوں اور سسٹم پائی جانے والی سوچ اب کم ہو رہی ہے اب حکومتی پالیسیوں میں جاب کوٹہ ہے، ایجوکیشن کوٹہ ہے (پنجاب میں)۔ آ ئی ٹی کا استعمال بڑھ جانے کے بعد بزنس کے اصول بھی بدل گئے ہیں صرف آپ میں ہنر قابلیت اور محنت کا جذبہ ہو نا چاہیے کوئی بھی آپ کو ترقی سے نہیں روک سکتا۔

تعصب میں ہمارے حصے دار خواتین تھیں جنہوں نے بڑی حد تک اپنی جدوجہد سے حکومتی پالیسیوں کو بدلوا کر اس سوچ کو ختم کر کے ترقی کے برابر مواقع حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں جس کی بہت ساری مثالوں میں سے ایک مثال ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک سیما کامل ہیں جو ایک عورت ہونے کے ساتھ ساتھ مسیحی بھی ہیں۔ مگر ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کی تعلیم، قابلیت اور شاندار پرفارمنس ہے جس کو ان کا مذہب اور جنس بھی نہیں رو ک سکی۔

تعصب کے بعد دوسرا نعرہ جس نے ہمیں بہت خراب کیا وہ ہے اپنی نالائقی کا الزام دوسروں کے سر لگا نے کا، جو کہ سب سے آ سان عمل ہے مطلب کسی بھی ناکامی پر اتنا کہہ دینا کہ ہمارے سیاسی سماجی لیڈرز ہمارے لئے کچھ کرتے نہیں۔ پنجاب حکومت اور خصوصاً وزارت برائے اقلیتی امور نے حالیہ وزیر صاحب کی قیادت میں نمایاں پالیسز متعارف کروائی ہیں جن میں ہایئر ایجوکیشن کوٹہ نمایاں ترین ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے مسیحی مومنین بھی گئیر لگائیں اور کھوکھلے نعروں سے آ زاد ہوکر اپنی قابلیتوں کو بہتر کر کے ترقی کے برابر مواقع حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).