جھوٹ کی پھیلتی امر بیل


\"Hashimجھوٹ جھوٹ ہوتا ہے، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، جھوٹ بدترین گناہ ہے، کسی بارے میں خلاف حقیقت خبر دینے کو جھوٹ کہا جاتا ہے۔ یہ سبق زندگی کے تدریسی عمل کے دور میں ہمیں اساتذہ دیا کرتے تھے اور تقریباً روزانہ ہمیں اُن واقعات سے گزرنا پڑتا تھا جس میں تھوڑا بہت، ہم سمیت ہماری جماعت کے ساتھی، ہمارے دوست جھوٹ بولنے میں ملوث ہو جایا کرتے تھے۔ کبھی سبق یاد نہ کرنے کی صورت میں، کبھی گھر کا کام مکمل نہ ہونے کے باعث تو کبھی تاخیر سے اسکول پہنچنے کی وجہ سے۔ لیکن جھوٹ بولتے ہوئے ہمارے انگ انگ سے یہ اظہار ہو جایا کرتا تھا کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ زندگی بھر کا مشاہدہ ہے کہ جھوٹ کی وجہ سے کبھی کامیابی کا سامنا نہیں ہوا، بلکہ ہمیشہ خفت وشرمندگی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ یہ سوال ہمارے ذہن کے ننھے دریچوں میں ہمیشہ کلبلاتا رہتا تھا کہ آیا جھوٹ کے ذریعے کامیابی حاصل کیوں نہیں ہوتی، کیوں ہمیشہ جھوٹ بولنے کے بعد شرمندگی اور خجالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جوں جوں تدریسی عمل آگے بڑھتا گیا ذہن کی اسکرین کو وسعت ملی تو علم کی روشنی اور جستجو کی تمنا اُن دریچوں میں داخل ہونا شروع ہوئی۔ نتیجہ یہ ہی برآمد ہوا کہ جب جھوٹ بولنے کو اللہ اور کائنات کے تسلیم شدہ اعلیٰ سیرت یافتہ اللہ کے رسول، ہمارے پیارے نبیﷺ نے گھناؤنا عمل اور شرمندگی کا باعث قرار دے دیا ہے تو جھوٹ کے ذریعے کامیابی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

آج کل وہی درج بالا سوال ہمارے ذہن میں دوبارہ ارتعاش پیدا کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ تفکرات میں بھی اضافہ کر رہا ہے کیونکہ سوال کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاستی سطح سے جھوٹ بولا جائے گا اور اُس کے اثرات معاشرے پر مرتب ہوں گے اور جب ہم من حیث القوم جھوٹ جیسے گناہ کبیرہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیں گے۔ سچائی کو جھٹلائیں گے، جھوٹ کو فروغ دیں گے۔ جھوٹ بولنے پر نتیجہ شرمندگی ہو گی لیکن شرمندہ نہیں ہوں گے۔ ہر شعبے میں جھوٹے اور باتونی چارہ گروں کا انتخاب کریں گے تو کیا ایسا معاشرہ خیر کا معاشرہ ہوگا، ایسے معاشرے کا مقدر کیا ہوگا، انجام کیا ہو گا؟
دور حاضر میں جھوٹ کی تربیت گھر کی چار دیواری سے ہی شروع ہو جاتی ہے جب گھر کا سربراہ اپنے بچے کو یہ کہہ رہا ہو کہ ’’جاؤ انکل سے کہہ دو بابا گھر پر نہیں ہیں‘‘۔ اس جھوٹ پر مبنی عمل کو بارہا دُہرانے سے بچے کی جھوٹ بولنے کی عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے تو وہ جھوٹ کو چالاکی اور مفید عمل سمجھنے لگتا ہے۔ پھر وہی بچہ بڑا ہو کر معاشرے میں جھوٹ کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے اور آج کا معاشرہ اُسی تربیت کی دین نظر آرہا ہے۔ آج ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد میں وہ بچہ نظر آ رہا ہے جو پختگی کے ساتھ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی فخریہ انداز میں کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ آج جھوٹ کی امر بیل سے ہر شخص لپٹا اور اس کی کیچڑ میں لتھڑا نظر آ رہا ہے۔

جھوٹ کو (اُم الخبائث) ہر برائی کی ماں کہا گیا ہے۔ کرپشن و رشوت ستانی اور ان جیسی خوفناک بُرائیوں کا جنم اسی ماں کے کوکھ سے ہوتا ہے۔ ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جو بڑی قربانیوں کے عوض اس مقصد کے تحت حاصل کیا گیا تھا کہ اس مسلم ملک کو تمام مسلم ممالک، بلکہ دُنیا کے عظیم الشان ملکوں کی صف میں کھڑا کر کے دکھائیں گے۔ آج ہر سو جھولتے، لہلہاتے کھیتوں والے اس زرعی ملک کو جھوٹ و فریب پر کھڑی فصل کا سامنا ہے۔ چمکتے دمکتے دیوہیکل معدنیات سے بھرے پہاڑوں والے ملک کو ایسے سنگ دل افراد کا سامنا ہے جو اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے سازشوں کے جال بننے کے عادی ہیں۔ اس ملک کی سر زمین، لہلہاتے کھیتوں اور معدنیات سے مالا مال ہے جو تاحیات توانائی کے بحران کا خاتمہ کر سکتی ہے بلکہ ہمارے ملک کی ترقی کا ضامن بھی ہیں۔ لیکن اس پاک سر زمین کو فلاح وبہبود کے نام پر قرض لے کر گروی رکھنے والے، عیاشی کرنے والے شہنشاہوں کا سامنا ہے۔ ایک فرقے کا شخص دوسرے فرقے کی کبھی مدد نہیں کرے گا چاہے وہ کتنا ہی مظلوم کیوں نہ ہو۔ ایک پارٹی کا کارکن دوسری پارٹی کے کارکن کی کبھی حمایت نہیں کرے گا خواہ وہ کتنا ہی سچا، ایماندار اور مخلص کیوں نہ ہو۔ کاروبار جھوٹ بول کر کیا جا رہا ہے۔ خوردونوش کی اشیاء میں ملاوٹ کا رحجان پروان چڑھ چکا ہے۔ مظلومیت کا روپ دھار کر گداگری میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ کم تولنا، فراڈ کرنا، لوٹ کھسوٹ کو چالاکی، سیاناپن سمجھا جا رہا ہے۔ وسائل کا بے دریغ استعمال اپنے مفاد کے لئے کیا جا رہا ہے، علماء حضرات ماضی کو سینے سے لگائے حال کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے نظر آ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments