جانان تم سے شکوے تو ہیں مگر جشن آزادی بھی تم سے ہے


سنو جانان مانا کہ تم سے بہت شکایتیں ہیں بہت سارے شکوے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو کہنا ہے جو ان خاموش لبوں نے کہا نہیں کبھی اس ڈر سے نہیں کہا کہ تم ناراض نہ ہوجاؤ کبھی اس خوف میں کہیں میں گم نہ ہوجاؤں۔ کہیں اس جھجک میں کہ میں کچھ کہوں اور تم کچھ اور سمجھو کبھی تم سے محبت کی وجہ سے کبھی تمہاری انا کے مان کی خاطر کبھی کسی مصلحت کی وجہ سے۔

لیکن اب بہت ہمت کرکے سوچا اس آزادی کے دن جو بھی گلے شکوے تم سے کر ہی ڈالوں آخر اتنا تو حق بنتا ہے یا شاید نہیں بنتا مگر آج ہمت کرہی لی تو کہنا تو ہے تو سن لو جانان۔

سوچ رہی ہوں کہاں سے شروع کروں اور ہمارے درمیان میں فاصلہ بھی تو زمین آسمان کا ہے۔ خیر اتنا لمبا سلسلہ ہے شکایتوں کا کیا کروں ہاں تو جانان مانا کہ خوش قسمتی سے تم تو ہمیشہ سے بہت با اختیار طاقتور رہے ہو اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی تمام سیاستیں تمہارے اشاروں کی ہی منتظر رہی ہیں۔ تخت کی جنگ میں ہمیشہ سارے پیادے تمہاری چالوں کے محتاج رہے ہیں۔ ہر کٹھ پتلی تمہارے ہاتھ کے اشاروں پر ہی ناچتی ہے۔ جس کو چاہا جب چاہا آنکھوں پر بٹھادیا جب چاہا جیسے چاہا دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال دیا۔

کوئی گولی کھا کر مر گیا کوئی تختہ دار پر چڑھ گیا اور کوئی ملک بدر ہوگیا۔ ہاں جانان مانا کہ تمہارا دائرہ اختیار اتنا ہے کہ بڑی بڑی طاقتیں تمہاری مدد مانگتی رہیں ہیں۔ ہاں مانا جانان تم کو محبتیں بھی لاکھوں کی تعداد میں ملتی ہیں دعائیں بھی۔ لیکن ان محبتوں اور دعاؤں کا قرض بھی تو ہے نا تم پر۔

ہاں یہ بھی درست ہے کہ تم کانٹے کی طرح دشمن اور حاسدوں کی آنکھوں میں چھبتے ہو۔ لیکن جانان یہ بھی تو سچ ہے نا کہ بہت ساری اپنوں کی آنکھیں تم سے سوال پوچھ رہی ہیں ان کے اپنے کہیں گم ہوگئے ہیں اور کس سے پوچھیں کس سے سوال کریں تم سے ہی امید ہے کہ شاید ان کے پیارے لوٹ کر آجائیں۔

مانتی ہوں کہ تم کو ان سے ناراضگیاں ہیں بنتی ہیں لیکن ان کے گلے بھی تو تم کو ہی سننا پڑینگے نا وہ بھی تو بس تم سے ہی کہینگے۔ یہ بھی تو سچ ہے نا جانان کہ اختیارات کی بات آتی ہے تو وہ سب تہمارے ہیں۔

لیکن کچھ بے اختیار انتظار میں ہیں کہ ان کی طرف تم نظر اٹھا کر دیکھ لو اب بہت ضروری ہوگیا ہے اس سے پہلے کہ یہ بے اختیار بھی ان راستوں پر چل پڑیں جہاں ان سے پہلے کئی نوجوان حق مانگنے چل پڑے ہیں۔ کیسے آئیں گے واپس جانان ان کو لانا بھی تو تمہاری ذمہ داری ہے نا۔

یہ بھی مانا جانان کہ جب بھی کوئی آفت آتی ہے کوئی مشکل آتی ہے تو تم سب سے پہلے مدد کے لیے آ جاتے ہو اپنا فرض بھی ہمیشہ نباہتے ہو۔ مدد کے لیے سب آنکھیں تہاری طرف دیکھتی ہیں تو جانان اب بھی کچھ خاموش لب تم سے ہی فریاد کر رہے ہیں سن لو ان کی۔

لیکن جانان یہ بھی تو ہے نا کہ تم سے قربت رکھنے والے ہمیشہ آنکھوں کے تارے بن کر رہتے ہیں اور جو تمہارے زیر عتاب ہوں ان پر زمین کیا آسمان بھی تنگ ہوجاتا ہے۔ پر یہ تو تمہارا مزاج ہے نا مگر ہاں تمہاری بہادری پر تمہاری شجاعت ر بھی کوئی شک نہیں اسی وجہ سے تو ہم ان آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔

لیکن جانان کچھ مظلوم اپنی سانسیں گن رہے ہیں تمہاری توجہ کے منتظر ہیں ان پر بھی نظر ڈال لو۔ مانا کہ کہ اس زمین کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے تمہارے جیسا کوئی اور نباہ بھی نہیں سکتا۔ لیکن جن پر زمین تنگ ہوگئی ہے یا کی جارہی ہے ان کے دکھ کا مداوا بھی تو تم کو کرنا پڑے گا۔

مانا جانان تمہاری قربانیاں لازوال ہیں بہت خاص ہیں لیکن جانان کچھ قربانیاں ہماری بھی تو ہیں نا بھلے اتنی خاص نہ ہوں۔ تو بس جانان تم سے اتنا ہی کہنا تھا امید تو بہت ہے کہ تم برا نہیں مانوگے کیونکہ جانان تم سے نہیں تو پھر کس سے کہیں گے۔

ہاں جانان شکایتیں تو بہت ہیں تم سے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ آزادی کا جشن بھی تم سے ہے تو جانان ہزار شکوے ہزار گلے پر آزادی مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).