مایو سی سے کیسے بچیں؟



ہمارا دل روزمرہ کی زندگی میں بجھا بجھا سا رہتا ہے۔ ہم زندگی کی پٹری پر اپنی ریل گاڑی گھسیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم روٹی کمانے کے لیے جو کام کر رہے ہوتے ہیں اس میں بھی ہمارا دل نہیں لگ رہا ہوتا ہے۔ ہم مجبوراً حصول رزق کے لیے اپنے پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ آئیے آج مایوسی کی جراحی کرتے ہیں۔ ہم جو کام بھی پہلی مرتبہ کرتے ہیں اسے سیکھنے کے لیے شعوری کوشش کرتے ہیں البتہ جب ہم وہ کام مکمل طور پر سیکھ جاتے ہیں اور اس میں رواں ہو جاتے ہیں تو پھر ہمارے اندر موجود روبوٹ یعنی مشینی انسان اس کام کو ہمارے اصلی وجود کی جگہ لے کر خود سے میکانکی انداز میں کرنا شروع کر دیتا ہے۔

میں جب گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر جاتا ہوں تو میری گاڑی میرا روبوٹ ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے۔ میں اپنے خیالات میں گم ہوتا ہوں اور گردونواح کے مناظر سے بھی غافل ہوتا ہوں اور پھر اسی بے خبری کے عالم میں میں گھر پہنچ جاتا ہوں۔ گھر سے دفتر اوردفتر سے گھر تک کے سفر کو میں کبھی بھی نوٹس نہیں کرتا ہوں کیونکہ میرے اندر موجود روبوٹ نوٹس کرنے اور توجہ دینے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ روبوٹ تو کام کو بس خود کار انداز میں غیر شعوری طور پرسر انجام دے دیتا ہے۔ جو گیت میرے قلب کو پہلی مرتبہ چھو جاتا ہے جب میں اسے دسویں مرتبہ سنوں تو وہ میرے دل میں کسی قسم کا گداز پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دسویں مرتبہ وہ گیت میں نہیں بلکہ میرے اندر موجود میرا روبوٹ یعنی مشینی انسان سن رہا ہوتا ہے۔

میرا یہ روبوٹ میری بہت خدمت کرتا ہے۔ یہ میرے لیے وہ سارے کام کرتا ہے جنہیں کرنے میں مجھے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے لیکن وہ کام کرنا میری مجبوری ہوتی ہے جیسا کہ گھر سے دفتر اوردفتر سے گھر جانے کے لیے ڈرائیونگ مجھے چارونا چار کرنا پڑتی ہے۔ ہر انسان کے اندر موجود یہ مشینی خدمت گزار حدود فراموش ہے۔ یہ ہمارے وہ کام بھی کرنا شروع کر دیتا ہے جسے ہم شعوری طور پر دلچسپی کے ساتھ کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

ہم سب میں موجود یہ روبوٹ دھیرے دھیرے ہمیں اپنا یرغمال بنا لیتا ہے۔ یہ ہمیں یقین دلوادیتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ آسمان کے نیچے گزرنے والے شب و روز سب ایک جیسے ہیں۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے اور بس زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔ ہم سب کے اندر موجود یہ روبوٹ ہمارے اندر مایوسی کی فصل کاشت کرتا ہے۔ یہ ہمارے کانوں میں ہر لمحہ سرگوشی کرتاہے کہ اس جہان رنگ و بو میں کوئی منظر اور کوئی صورت حا ل بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کو توجہ دی جائے اور اسے دلچسپی کا موضوع بنایا جائے۔ ہمارا یہ روبوٹ ہمیں ہر دم یہ تجویز دیتا ہے کہ حالات جوں کے توں رہیں گے اسی لیے سعی و جہد کاربے سود ہے۔

یہ روبوٹ بھی ابلیس کی طرح مایوسی کا ترجمان ہے۔ ہم اپنے اندر موجود اس ابلیس نما روبوٹ کو شکست دے سکتے ہیں اگر ہم یہ عزم کر لیں کہ ہم سرسری اس جہان سے نہیں گزریں گے۔ ہم شعوری طور پر اپنی دلچسپی کے موضوع تراشیں گے اور پھر انہیں پیاز سمجھ کر ان کی پرتیں کھولیں گے۔ جب ہماری توجہ اور شعوری کوشش سے حقیقت بے نقاب ہوتی ہے تو ہمارے اندر موجود ہمارے روبوٹ کی سلطنت سمٹنا شروع ہوجاتی ہے اور ہم اس پر سوار ہو جاتے ہیں۔

جب ہم اپنی حیات کا کوئی ایسا مقصد بناتے ہیں جس کا آغاز تو ہماری ذات سے ہوتا ہے لیکن وہ ہمیں دوسروں کی زندگی کو بھی گل و گلزار بنانے کی ترغیب دیتا ہے تو پھر ہمارے دل کے آستانے پر اداسی بال کھول کر نہیں سوتی ہے بلکہ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر خوشی کی پھلجھڑیاں چلنا شروع ہو گئی ہیں اور مایوسی کے بادل چھٹنا شروع ہو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).