پاک ترک سکول سسٹم – میری آنکھوں نے جو دیکھا


اعجاز احمد

\"ijaz-pic\"پاک ترک سکولوں کے ساتھ منسلک اساتذہ ہماری نظر میں واجب الاحترام ہیں۔ دیدہ و دل ان کے لئے فرش راہ کئے دیتے ہیں۔ ان کےساتھ طلبا اور ان کے والدین کی جو عقیدت اور رونے دھونے کے جذباتی مناظر پچھلے چند دنوں سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پہ دیکھنے میں آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر خوشی کا احساس ہوتا ہے کہ طلباء کے دلوں میں اب بھی اپنے اساتذہ کے لئے والہانہ عقیدت اور محبت موجود ہے جو کبھی ہمارے اسلاف کا خاصہ ہوا کرتا تھا اور جو چیز تقریباً اب صرف دینی مدارس تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ لیکن ہزار شکر کہ عصری اداروں میں بھی محبت و احترام کی یہ چنگاری پائی جاتی ہے۔ طلباء کے علاوہ ایک اور طبقہ جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا وہ بھی اپنے حصے کے رنج و غم کا اظہار الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کےذریعے کر رہے ہیں (درون خانہ کیا حالات ہیں بندہ اس سے اچھی طرح واقف ہے)۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا محض چند افراد کی محبت وعقیدت کی خاطر (بصد احترام) ملک وقوم اپنی سلامتی کو داؤ پر لگائے؟

میں خود اس بات کا معترف ہوں کہ پاک ترک سکول کے اساتذہ آج تک کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں پائے گئے جو ملکی مفاد کے خلاف ہو لیکن یہ دلیل تو پاکستانی طالبان کے حمایتی بھی پیش کرسکتے ہیں کہ ان میں بھی بے شمار لوگ ایسے موجود تھے اور ہیں جو خالص دینی جذبے سے سرشار ہو کر اس تحریک میں شامل ہوگئے تھے ان کو طالبان کا لیبل لگے دہشت گردوں کے مذموم عزائم و مقاصد کا کوئی پتہ نہیں تھا تو کیا ان کو ان کے طریقے کے مطابق کام کرنے دیا جائے؟

گولن تحریک کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ہیومن کیپیٹل پہ کام کرو کل کو یہی تمھاری طاقت بن کر تمھارے مشن کی تکمیل کریں گے، کیونکہ ان کے سکولوں سے نکلنے والے ہائبریڈ جنریشن نیم پاکستانی اور نیم ترکی ہو کر نکلیں گے جو اس ملک سے زیادہ اس تحریک کے مفادات کے امین ہوں گے۔ یہی افراد جب عدلیہ، فوج، سول سروسز اور اسی نوعیت کے مختلف اہم ادارواں کو جا کر سنبھالیں گے تو پھر ان کے ذریعے بڑی آسانی سے کسی بھی ایجنڈے کی تکمیل آپ کرسکیں گے۔ اور اس کی مثال ترکی میں رونما ہونے والی حالیہ بغاوت ہے، اس کے علاوہ بھی حزمت (خدمت) تحریک کے ساتھ وابسطہ افراد جو مسائل موجودہ حکومت کے لئے پیدا کر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بھی ہمیں وقت پر اس کا تدارک کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ ہم اس وقت کا انتظار کریں جب اس کو روکنا نہ صرف مشکل ہو بلکہ ناممکن ہوجائے۔

جہاں تک اس تعلیمی ادارے کی بات ہے تو یہ آج جس مقام پر کھڑا ہے اس کا کریڈٹ بلاشبہ پاکستانی اساتذہ اور ایڈمن سٹاف کو جاتا ہے۔ ترکی اساتذہ اور ایڈمنسٹریشن کو نہیں، لہٰذا خاطر جمع رکھیں، پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے یہ مناظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں کہ ہمارے طلبا پاکستانی اساتذہ کو ترک اساتذہ پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے علاوہ بہت ساری باتیں جو کہ یہاں کہنا مناسب نہیں ہیں کیونکہ میرا مقصد کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا نہیں بلکہ حقائق کو سامنے لانا ہے۔

اس کے علاوہ آج کل ملک کے غریب بچوں کو مفت تعلیم کی بات بڑے زور وشور سے کی جارہی ہے کہ پاک ترک سکولز غریب بچوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں تو جناب گورنمنٹ آف پاکستان سے مفت یا انتہائی سستی قیمت پر کمرشل پلاٹس اسی لئے حاصل کئے جاتے ہیں کہ یہاں غریبوں کو مفت تعلیم دی جائے گی،اس کے علاوہ بہت سے صاحب ثروت لوگوں سے کروڑوں روپے کے ڈونیشنز لئے جاتے ہیں مگر بدلے میں صرف چند طلباء کو سکالر شپس دئے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارے اوپر کوئی احسان نہیں کر رہے۔

آخر میں یہ کہنا کہ اگر ترک اساتذہ چلے جائیں گے تو یہ ادارہ ناکام ہوجائے گا محض زمینی حقائق سے عدم آگاہی پر مبنی ایک مفروضہ ہے کیونکہ اس ملک میں کوالٹی ایجوکیشن دینے والے بے شمار ادارے موجود ہیں جو کہ نسبتاً کم فیسوں میں زیادہ بہتر نتائج دے رہے ہیں۔ اور میں یہ بات بڑے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ خذمت تحریک کی ترجیحات میں تعلیم کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔ قوم کو مگر اس معاملے میں پاکستانی اساتذہ کا ممنون احسان ہونا چاہئے کہ انہوں نے ان کے بچوں کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم دی اور ان کا کیرئر بنایا نہ کہ خذمت تحریک کے ذاتی مقاصد کے حصول میں ان کے آلائے کار بنے، اختلاف کرنا آپ کا حق ہے۔۔۔

اعجاز احمد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments