آئیڈیالوجی کیوں ضروری ہے؟


انقلاب کیا ہوتاہے؟ اس کے عوامل و اسباب کیا ہوتے ہیں؟ اس کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟ ان بنیادی سوالات کا جواب نہ جاننے کا نقصان وہی ہوتا ہے جو ہم بحیثیت معاشرہ برسوں سے اٹھاتے چلے آرہے ہیں کیونکہ ہمیں ہر ریلی، ہر مظاہرہ، ہر جلسہ، ہر ہڑتال میں جوق در جوق شرکت کرنے کو کہا جاتا ہے اور یہ کہ اس ریلی کے اختتام پر انقلاب ہمارا منتظر ہوگا اور اس قوم کی قسمت بدل جائے گی۔ تہتر سالوں میں تو ایسا کوئی معجزہ نہ ہو سکا اور نہ ہونا تھا کیونکہ ہم انقلاب نما تبدیلیوں کے دھوکے میں رہے اور ہر کوئی ہماری سادگی سے فائدہ اٹھاتا رہا۔ ٹاک شوز، رصحافیوں، اور سیاستدانوں سے سنے سنائے انقلاب پر ایمان کا انجام اس سے بدتر تو ہو سکتا ہے بہتر نہیں۔

اگر ہم عوام پسند میڈیا کی بجائے علمی اور نظریاتی اصولوں کی روشنی میں انقلاب کو سمجھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر اجتماعی حرکت انقلاب نہیں کہلاتی، اصلاحات انقلاب نہیں ہوتیں، بہتری کا تقاضا کرنا یا تھوڑی بہت بہتری ے لے آنا انقلاب لانا نہیں کہلاتا۔ شورش، احتجاج، کودتا یا اس سے ملتی جلتی انقلاب نما تبدیلیاں انقلاب نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے اندر انقلاب کی کوئی بھی خصوصیت موجود نہیں ہوتی۔ مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی، لوڈ شیدنگ سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آنا انقلاب نہیں بلکہ مطالباتی احتجاج کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم موجودہ نظام سے تو مطمئن ہیں مگر اس کے اندر چند مطالبات یا اصلاحات چاہتے ہیں۔ انقلاب ہمیشہ آئیڈیالوجی کے بطن سے نکلتا ہے، حتی ایک اسلامی تحریک بھی انقلاب نہیں کہلا سکتی مگر یہ کہ اپنا انقلابی سفر جاری رکھتے ہوئے انقلاب کے مراحل میں داخل ہو جائے اور انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

تحریک کسی بھی انقلاب کا مقدمہ ہو سکتی ہے، اپنے اندر خاص مراحل رکھتی ہے جن کا مکمل ہونا لازمی ہے۔ ہم تحریک کے مراحل کو پیدائش انسان کے مراحل سے مشابہت دے سکتے ہیں۔ تحریک کا نطفائی مرحلہ (جب تحریک اس کے قائدین کے ذہنوں میں موجود ہوتی ہے)، جنینی مرحلہ (فکری طور پرہم آہنگ محدود گروہ کا بننا)، تولیدی مرحلہ (تحریک کا معاشرے میں اظہار وجود کرنا)، بچپن کا مرحلہ (جب تحریک کے افراد تجربہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں)، جوانی کا مرحلہ (جب تحریک انقلاب کے مرحلہ میں داخل ہو جاتی ہے)۔

ان تمام مراحل میں سب سے اہم و لازمی چیز آئیڈیالوجی ہے، نطفے سے لے کر انقلاب کے رونما ہونے اور حتی اس کے بعد بھی نئے نظام میں آئیڈیالوجی کی ضرورت کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ آئیڈیالوجی تحریک کی نہیں بلکہ انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ افراد جو کسی بھی انقلابی تحریک کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں، کم از کم ان کے لیے آئیڈیالوجی کی اہمیت اور اس کا کردار سمجھنا بہت ضروری ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو تحریک باآسانی انحراف کا شکار ہو سکتی ہے۔

گزشتہ اقساط میں عدم اطمینان اور آئیڈیالوجی کو انقلاب کی اہم خصوصیات کے طور پر پیش کیا گیا، یہاں یہ بتانا لازمی ہے کہ احساس عدم اطمینان بھی آئیڈیالوجی ہی سے پیدا ہونا لازمی ہے۔ مدون اور منظم آئیڈیالوجی کی روشنی میں موجودہ نظام کی خرابیوں اور آفات کی وضاحت کی جائے اور ان کا تفصیلی تجزیہ و تحلیل کیا جائے تاکہ انقلابی تحریک کے پیروکاروں کو مطالباتی عدم اطمینان اور موجودہ نظام کو قطعاً قبول نہ کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے عدم اطمینان میں واضح فرق معلوم ہو سکے۔

رسول اکرم ﷺ کو کبھی تمام قبائل کی سرداری کی پیشکش کی گئی تو کبھی خوبصورت عورت سے شادی کی پیشکش، لیکن رسول اکرم ﷺ کا مقصد جاہ و مقام کامطالبہ نہیں بلکہ مشرکانہ نظام کا جڑ سے خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی نظام کا قیام تھا۔ لہذا انقلابی تحریکوں کے اندر موجودہ نظام پر اعتراض کے آئیڈیالوجیکل محرکات واضح ہونا لازمی ہیں۔

آئیڈیالوجی کا کام یہاں ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ عدم اطمینان پیدا کرنے کے بعد نئے نظام کا نظریاتی و عملی نقشہ بھی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ہی بنے گا۔ جس نظریہ کی بنیاد پر انقلابی تحریک شروع کی گئی تھی، اس نظریے کی عملی شکل پیش کرنا انقلابی مرحلے کا لازمی جزو ہے تاکہ عوام کو نئے نظام کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔ البتہ آمادگی کا مطلب فقظ ذہنی طور پر نئے نظام کو قبول کر لینا نہیں بلکہ نئے پیش کردہ نقشے کے مطابق تمام عملی اقدامات کرنا ہے۔

آئیڈیالوجی کا اہم ترین کام انقلاب کے تمام مراحل جیسا کہ تحریک، انقلاب اور نئے نظام کی مسؤلیت کے لیے افراد تیار کرنا ہے کیونکہ اگر انقلابی افراد کی زیر نگرانی یہ مراحل طے نہ کیے جائیں تو قوی امکان ہے کہ اس انقلابی تحریک کا کانٹا بدل دیا جائے اور یہ عمل دنیا کی کئی انقلابی تحریکوں میں مشاہدہ کیا گیاہے۔ اپنے خطوط سے انحراف نہ کرنے اور انقلابی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بھی سب سے اہم کردار آئیڈیالوجی کا ہے۔

اگر آئیڈیالوجی نا متوازن ہوگی تو انقلاب کے وقوع پذیر ہونے میں بہت طویل مدت درکار ہوگی لیکن اگر آئیڈیالوجی دقیق اور منظم ہوگی تو بہت جلد انقلاب رونما ہو سکتا ہے لہذا انقلاب کی کامیابی کا دار و مدار آئیڈیالوجی پر ہوتاہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کمزور آئیڈیالوجی کی وجہ سے کئی انقلابی تحریکیں صرف تحریک ہی رہیں اور کبھی بھی انقلاب تک نہیں پہنچ سکیں۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد نئے نظام کا نٖفاذ بھی آئیڈیالوجی کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد سابقہ نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہوتا ہے اور نئے نظام کے نفاذ لیے ابتدائی چند سال نہایت کٹھن ہوتے ہیں، اس دوران انقلاب کو محفوظ رکھنا بہت ہی دشوار کام ہے، یہ دشوار کام بھی آئیڈیالوجی کی مدد سے ہوتا ہے۔ عوام کو ہرج و مرج، بھوک افلاس، اورتباہ حال مملکت کے اندر انقلاب سے وفا دار رکھنا لازمی ہے ورنہ عوام حالات کی سختیوں سے بچنے کے لیے انقلابی خطوط سے ہٹ سکتے ہیں۔ اگر آئیڈیالوجی ان حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تو عین ممکن ہے عوام کسی سازش کا شکار ہو کرخود ہی اس انقلاب کا گلا گھونٹ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).