حقیقی آزادی


یوم آزادی ہر سال 14 اگست کو پاکستان کی آزادی کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی یاد جب 1947 عیسویں میں انگلستان سے آزاد ہوکرپاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس دن عہد کیا جاتا ہے کہ وطن عزیز کو عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ اس دن پرچم کشائی، پریڈ، تقسیم اعزازات، گانے، ملی نغمے اور قومی ترانہ وغیرہ ہوتا ہے۔ بچے، بوڑھے، جواں سب اس نسبت سے خوشی مناتے ہیں۔ دو قومی نظریہ جس کی بنیاد 1857 عیسویں کی جنگ آزادی سے چلا جب مسلمانان ہند نے انگریزوں کے تسلط کے خلاف آزادی کا اعلان کیا اس میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگ حضرت خواجہ احمد سعید رحمتہ اللہ علیہ المتوفی 2 ربیع الاول 1277 ہجری جو جنت البقیع میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آرام فرما ہیں آپ کی خدمات سرفہرست ہیں۔

شرعی نقطہ نظر سے اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ٹھیک اسلامی جہاد ہے۔ یہ جرئت مندانہ اقدام سب سے پہلے آپ کے حصے میں آیا اور اس فتوی پر سب سے پہلے آپ نے دستخط فرمائے بعد میں دوسرے علمائے اکرام نے دستخط کیے لہذا اس تاریخی جہاد کے آپ روح رواں ہیں۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد بھی چار ماہ خانقاہ عالیہ حضرت شاہ غلام علی دہلوی میں زیر تعلیم رہے۔ آپ کی مقبولیت عام کے پیش نظر انگریز حکمرانوں نے آپ کو بہت ستایا بالآخر آپ عازم حرمین شریفین ہوئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ پہلی جنگ آزادی سے پاکستان کے معرض وجود تک قربانیوں کی لازوال کہانیاں ہیں آج اتنی قربانیوں کے بعد غلامی سے نجات ملی تو اسے منانے کے لیے فقط ملی نغمے، اور باجے بجاکر ہی نہیں بلکہ آزادی کے شکرانے کے طور پر مثبت اقدامات سے منانے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے اپنی خواہشات سے آزاد ہونا ہے اور ہمیں با شعور انسان بننا ہے جو ہمیں برسوں سے لسانی، فروعی، مذہبی، سیاسی اعتبار سے غلام بنائے ہوئے ہے۔ آزادی کے بھی کچھ تقاضے ہیں، ہم ثابت کریں ہم وقع ہی آزاد ہیں، کہ ہم آزاد پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ نہ دیکھیں کس نام نہاد لیڈر کے پاس کتنی افرادی قوت ہے لہذا اس کی بات ہی حرف آخر ہے۔ بلکہ اپنی سوچوں کے تالے کھولیں، سوچیں، سمجھیں پھر عمل کریں۔ آج ہماری پستیوں کی وجہ ہم بغیر سوچے سمجھے ہر اس شخص سے مرعوب ہوکر نہ صرف خود بلکہ اپنے حلقہ احباب کو بھی اس سمت دھکیل دیتے ہیں جو چند میٹھے بول بولتا ہے اور حقیقت سے دور افسانوی زندگی کے خواب دکھاتا ہے اور حقیقت سے دورلے جاتا ہے۔

ہم اسے لیڈر سمجھتے ہیں اور وہ ہمیں استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ انسان ہوتے ہوئے کیونکر عقل کے گھوڑے نہیں دوڑاتے؟ مانا کہ انسان جب پہلی بار استعمال ہوتا ہے تو انجانے میں ہوتا ہے جبکہ دوسری بار استعمال ہوتا ہے تو وہ خود جان بوجھ کر استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنی دماغی صلاحیت کا پتہ دیتا ہے کہ راہ میں حائل پتھر سے وہ پھر سے چوٹ کھاتا ہے یا کنارہ کر کے پختہ عقل کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ آج ہم بدنی طور پر تو آزاد ہیں مگر دن بدن ذہنی طور پر مفلوج ہوتے جا رہے ہیں۔

اس لیے ہم ملکی، صوبائی، لسانی، سیاسی، فروعی ہر جگہ پر شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ معتدل نظام زندگی سے دور غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہماری حالت دن بدن پستی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ افسوس! صد افسوس کہ ہم میں احساس زیاں بھی نہیں۔ ابھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں! بس بہت ہوگیا! اب بھی خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں! حقیقی طور پر آزاد ہوجائیں ورنہ آئندہ نسلوں کو ان ملی ترانوں، ان نعروں، اور ان خوشیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور وہ اس معاملے میں ہمیں کبھی نہیں بخشیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments