سماجی رابطے یا فاصلے


یار! ”ایک بات بتاؤ کہ انسان ایک دوسرے سے اچھے اور مضبوط تعلق بنانے یا الگ تھلگ اور دور رہنے کے لئے پیدا ہوا ہے، ہمارے درمیان پائے جانے والا فرق جسے کبھی سوشل سٹیٹس، کبھی سوچ کا اختلاف، کبھی فرقے، کبھی نظریات اور کسی بھی وجہ کو بنیاد بناکر قائم کیا جا چکا تھا۔ کیا اسے مضبوط بنایا جا رہا ہے یا پھر باہمی اتفاق واتحاد، سب کا خیال رکھنے اور مشکل میں مدد آنے کے درس کے امتحان کا وقت ہے“ ۔ یہ باتیں میرے ایک دیرینہ دوست نے طویل عرصے بعد فون کال پر کیں، جسے ریسیو کرتے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی مگر اس کے جذبات سے اندازہ ہورہا تھا کہ عالمگیر وبا کے اثرات سماجی فاصلے کی تاکید کی صورت میں انسانی زندگیوں پر مرتب ہورہے ہیں۔

دوست نے اس روز شاید اپنا اندر کا غبار نکالنا تھا، میری یاد بھی آئی ہوگی، خیر خبر کے بہانے وہ اپنی رو میں بہہ گیا، میرا یہ دوست جوانی میں بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ رہ چکا تھا، بڑا آزاد منش، روشن خیال اور ترقی پسند سوچ رکھتا تھا، آنے والے دنوں میں کارپوریٹ سیکٹر سے وابستہ ہوکر ایک مصروف زندگی گزارنے لگا، وہ سیاست اور سماج سے متعلق ہونے والی کسی بھی پیش رفت یا مسئلے پر ہمیشہ اپنا الگ اور مستند موقف بیان کرتا ہے، وہ عصر حاضر کے تمام تقاضوں کو بھی اپنائے ہے، سوشل میڈیا میں ٹویٹر، انسٹا گرام، فیس بک، واٹس ایپ اور باہمی رابطوں کے دیگر تمام ذرائع سے مسفید ہوتا ہے، فون پر اپنی بات جاری رکھتے اس نے کہا ”ایک بات اکثر سوچتا ہوں کہ ایک دور تھا کہیں اچانک ملتے یا پھر کسی پلاننگ کے نتیجے میں ملاقات رکھتے، جہاں آپس میں بیٹھ کر ناصرف ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرلیتے بلکہ کئی اہم امور پر سیر حاصل تبادلہ خیال بھی ہوجاتا، ایک طرح سے وہ نشستیں ہمارے کتھارسس اور باہمی گفت وشنید کا اچھا خاصا سامان فراہم کردیتی تھیں“ ۔

مجھے لگا کہ وہ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال خصوصاً سماجی روابط کی بندش کو شدت سے محسوس کر رہا ہے، شاید اسی وجہ سے تھوڑا اپ سیٹ ہے، حالانکہ وہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک ہے، اور کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ دوسرے دوستوں اور ملنے والوں کی ڈھارس بندھاتا اور انہیں باہمی میل ملاپ کی تلقین کرتا، اس کی گفتگو جاری رہی۔ بولا، ”سوشل میڈیا لوگوں کے درمیان رابطے کا ایک موثر ذریعہ بن چکا ہے، معلومات تک رسائی اور سماج میں ہونے والے واقعات یہاں بآسانی دسیتاب ہوتے ہیں، اس کے علاوہ کسی بھی موضوع پر بحث ومباحثے کا بغیر دعوت موقع مل جاتا ہے، حتیٰ کہ کسی دوسرے کی بات کا بتنگڑ بنانے تک کی نوبت آجاتی ہے۔ مطلب ہم لوگ کبھی کبھی سنجیدہ مسئلے کو انتہائی غیرسنجیدگی کے مقام تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات ایک غیر ضروری معاملہ پرمغز اور ایمان افروز مباحثہ کی صورت اختیار کرجاتا ہے“ ۔

دوست کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ سوشل میڈیا سے مایوس تھا، کہنے لگا کہ اب صرف مسلک رہ گئے ہیں اور نظریات کہیں پیچھے رہ گئے ہیں، کیونکہ نظریہ کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں شاید پورا کرنا ممکن نہیں، کسی ایک سوچ کو اختیار کرنا اور اس کے لئے ٹھوس دلیل اور جواز ہونا، اب جسے جب اور جہاں سہولت دکھائی دیتی ہے وہ اپنے خیالات میں ردوبدل کرلیتا ہے، وہ چاہے سیاست ہو، سماجی مسئلہ ہو یا پھر مذہبی معاملہ ہو۔ اختلاف کسی کا بھی حق ہے، سوشل میڈیا پر زیادہ تر لوگوں کی خواہش اپنی سوچ کے حامی تلاش کرنا رہ گیا ہے، یہ انسانی جبلت ہے وہ ایسا ہی کرتا ہے لیکن متضاد آرا کا خیرمقدم کرنے سے ایک صحت مند بحث جنم لیتی ہے، دیگر صورت میں شروع ہونے والی گفت وشنید کسی انجام تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس سب کے نتیجے میں ایک غیر ضروری سی مشق ہوتی ہے۔ اور مزید ذہنی پیچیدگی اور الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔

فون پر اس وقت ہونے والی ہماری بات چیت کا بھی شاید کوئی حاصل وصول نہ نکل پاتا لیکن مجھے دوست کے خیالات سے اس حد تک بالکل اتفاق تھا کہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر رجحان ہم خیال افراد کا گروپ بنانے کا ہوتا ہے، یا محض اپنی ذاتی تسکین کی خاطر کچھ بھی پوسٹ کرکے ردعمل دیکھا جاتا ہے۔ اس میں بہت کم لوگ یا گروپ ہوتے ہیں جہاں سیاست یا ادب کے حوالے سے اچھی بحث کا سلسلہ چلتا ہے۔ دوست، جس نے مجھ سے زیادہ سوشل میڈیا پر انحصار کیا ہے، اس کے گلے شکوے ختم نہیں ہوپارہے تھے، کہنے لگا، ”سب سے زیادہ افسوس ایسے لوگوں پر ہے جو ابہام کا شکار ہیں، ادھوری بات سے بحث چھیڑ دیتے ہیں، پھر اس میں ہر سوچ کا بندہ اپنا حصہ ڈالتا جاتا ہے کوئی اسے سلجھانے میں لگا ہوتا ہے جبکہ کئی اس ابہامی کیفیت کو مزید غیر واضح انجام کی جانب دھکیل رہے ہوتے ہیں۔

بس ایک ہم خیال طبقہ بیٹھا مخالف کی گوشمالی میں لگا رہتا ہے، جب سنجیدگی سے ردعمل دیں جواب ملتا ہے یہ محض تفنن طبع کا سامان تھا آپ زیادہ سنجیدہ نہ لیں۔ کسی غیرمستند اطلاعات کی نشاندہی کردیں کہا جاتا ہے میں اسے چیک کرتا ہوں یا پھر صرف بات باقاعدہ ہنسی میں ڈال دی جاتی ہے“ ۔ دوست کی یہ بات میں نے بھی بہت زیادہ محسوس کی ہے، ہم اکثر بغیر تصدیق کے کسی کی پوسٹ آگے فاروڈ کردیتے ہیں، ہمارا مقصد شاید اتنا ہی ہے کہ دیکھیں اس میں کتنا مزہ ہے۔

دوست نے کہا کہ ہم اپنی اس نام نہاد مصروف زندگی میں ایک دوسرے سے رابطے بڑھاتے ہیں، اس میں دوستوں کا ایک وسیع حلقہ بن جاتا ہے جس میں عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں، سوشل میڈیا ہمیں ایسا شاندار موقع فراہم کرتا ہے کہ بیک وقت دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے فرد سے وقت کی بندش کو بالائے طاق رکھ کے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایک طرف ہماری زندگی تعلقات کے محدود ہونے کی شکایت کرتی ہے، ہمارے پاس اپنے گھر والوں کو دینے کے لئے وقت نہیں، دوست احباب بھی بہت کم مل پاتے ہیں، مصروفیت کے لگے بندھے بہانے ہوتے ہیں، لیکن دوسری جانب سوشل میڈیا ہمیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے رابطے میں رکھے ہے، کئی گروپ ہمارے ایک ردعمل، ہمارے موقف کے انتظار میں ہوتے ہیں۔

کئی دوست روزانہ صبح بخیر کے پیغام سے دن کا آغاز کرتے ہیں انہوں نے شاید اپنوں کو بھی ایسا کوئی پیغام نہیں دیا ہوتا۔ سوشل میڈیا کی دنیا بظاہر ایک دوسرے سے لاتعلق لوگوں کو آپس میں جوڑے ہے، لیکن محض وقت گزاری ہے، یہ حقیقی رابطوں سے فرار کا ذریعہ ہے، دوست بولا، میری بات سے تمہیں بھی اختلاف ہوگا لیکن یہ سب مصنوعی ہے، میرے جیسے ترقی پسند خیالات رکھنے والے، مذہبی قدامت پسند سوچ رکھنے والے، سماج سے بے رخی اختیار کرنے والے بھی صرف ایک پناہ گاہ یا اپنی شناخت کی تلاش میں ہوتے ہیں، وہ بڑے دکھی انداز میں بولا ”ہم پہلے سے سماجی دوری کا شکار تھے اس وبا نے انجانے میں ہمارے درمیان مزید فاصلے بڑھا دیے، ہم اس موثر ذریعے کو بہتر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ہمیں اپنی سوچ کے اندر پائے جانے والا ایڈہاک ازم ختم کرنا ہوگا، یعنی بس یہ کام یا بات کی اور آگے نکل گئے، کسی مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔

معلومات کی فراہمی ہو، یا کسی موضوع پر بحث اس کے مستند ہونے کا خیال رکھنا چاہیے، دوسروں تک تصدیق کے بغیر کوئی چیز منتقل کرنے سے ساکھ متاثر ہوتی ہے، اگر ہم جواب میں کہ دیں،“ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ”ایسا نہیں فرق پڑتا ہے، ہم اس طرح ایک دوسرے کا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ یہیں سے فاصلے بڑھتے ہیں۔ دوست کا کہنا تھا کہ اگر ہم مل بیٹھ نہیں سکتے تو کم ازکم اس فورم کو بہترانداز سے استعمال کرکے خیالات کا ایک اچھے طریقے سے تبادلہ کر سکتے ہیں۔

یہ رابطے ہمارے درمیان پائے جانے والے سوچ اور نظریے کے فاصلے شاید کم نہ کرسکیں لیکن قریب لانے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ وبا زیادہ دیر نہیں رہے گی لیکن اس وائرس کے بہانے اگر ہم ایک دوسرے کو سمجھ لیں، سن لیں، اور بہتر انداز سے اپنا موقف پیش کریں، یہ ہمارے سماجی رابطے مضبوط بنائے گا، صرف تحمل اور برداشت دکھانا ہوگی، یہ مشکل ہے، عادت ڈال لیں، بہت مزہ آئے گا، دوسرے کو سننے اور اپنی بات اس تک پہنچانے میں۔ زندگی کچھ آسان ہو جائے گی“ ۔

دوست کی طویل ٹیلیفونک نشست ختم ہوگئی مگر اس نے اپنا نکتہ نظر بیان کر دیا، مجھے بھی اختلاف نہیں اور جتنا میں نے سماجی رابطوں کو سمجھا ہے، وہ انہیں باتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ محض ذاتی خوشی اور تسکین کو مدنظر نہیں رکھنا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ دوسروں تک کیا بات پہنچا رہے ہیں، اس میں کوئی ادھورا پن نہ ہو، کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو، دوسرے کا موقف سنا جائے، اپنی دلیل تھونپنے کی کوشش نہ کی جائے۔ بحث کو احسن طریقے سے سمیٹا جاسکتا ہے۔ صرف اتنا کرنے سے ہی یہ فاصلے دور ہوسکتے ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar