مالاکنڈ میں ملازمین کا پر امن احتجاج


تاریخی طور پر مالاکنڈ کی سرزمیں ہر مثبت تبدیلی کے لیے استعمال ہوئی ہے اور اس مٹی نے ایسے بہادر، حق پرست اور نڈر لوگوں کو جنم دیا ہے جو حق کے لیے لڑے ہیں اور انہوں نے ہر تعمیری و فلاحی تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہا ہے۔

اس علاقے کے زیادہ تر عام لوگوں نے حق پرستی کا حق ادا کرتے ہوئے 1895 ء اور 1897 ء میں انگریزوں کے خلاف غازی عمرا خان اور سرتور فقیرکی اخلاقی اور جنگی امداد کی۔ مالاکنڈ کی انتظامی حیثیت 1970 ء تک فاٹا کی دوسری ایجنسیوں کی طرح تھی۔ یہاں خاص لوگوں کو ووٹ دینے کا اختیارتھا۔ عام شخص ووٹ دینے کا اہل نہیں تھا لیکن یہاں کے ترقی پسند باشندوں نے عوامی خیل تنظیم کے پلیٹ فارم سے کامیاب مہم چلا کر ایک فوجی ڈکٹیٹر یحیٰ خان کو مالاکنڈ ایجنسی کے عوام کو ووٹ کا حق دینے پر مجبور کر دیا۔

اس مٹی کے لوگوں نے پی پی کے انقلابی نعرہ کے ذریعے یہاں پر انگریز کے بنائے ہوئے ڈریکولین لا ایف سی آر کو ختم کیا۔ پھر یکے بعد دیگرے اس امید پر مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کی کہ وہ اس دھرتی کے معاشی اور قانونی مسائل کے لیے مناسب حل تلاش کریں گی۔ آخری بار عمران خان کے نعرہ تبدیلی کو سینے سے لگاکر پی ٹی آئی کو ووٹ دیا لیکن اب یہاں کے عوام حکومت کی پالیسیوں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔

آل ایمپلائز گرینڈ الاینس نے مالاکنڈ کے باسیوں کے اس مزاج کو مدنظر رکھ کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے مالاکنڈ میں جلسہ عام کرنے کا اعلان کیا۔ بجٹ 2020۔ 21 ء میں جب حکومت نے سرکاری ملازمین کو یکسر نظر انداز کیا تو تمام سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات کو ارباب اختیار تک پہنچانے کے لئے آل ایمپلائیز گرینڈ الاینس (AEGA) تشکیل دے دیا جس میں ملگری استاذان، پیپلز ٹیچر فورم، تنظیم اساتذہ، مزمل ترنابی گروپ، اپیکا، سکول آفسزایسوسی ایشن، اپٹا، وحدت اساتذہ، وحدت اساتذہ غیرسیاسی، اپٹا حقیقی، پی ڈبلیو ڈی لیبر یونین، اکاؤنٹس افسر ز، ایریگیشن اور پبلک ہیلتھ، پیرامیڈکس ملگری، ٹی ایم ایز اور ورکرفیڈریشن شامل تھے۔

14 جولائی کو AEGA نے حکومت کو اپنے دس جائز مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا۔ ان میں تمام ایڈہاک ریلیفئز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنا، ہاؤس رینٹ الاؤنس کوجاری بنیادی تنخواہ پر 50 فیصد کرنا، میڈیکل الاونس 10 ہزار روپے ماہانہ کرنا، آئی ایم ایف کا سرکاری ملازمین اور محنت کشوں کے متعلق حکومتی پالیسی میں عمل دخل کو روکنا، 2013 ء اور 2015 ء کے ایڈہاک ریلیف کو ایڈوانس اینکریمنٹ میں تبدیل کرنا، تنخواہوں میں مہنگائی اور افراط زر کی مناسبت سے 100 فیصد اضافہ کرنا اور حکومت کوسرکاری ملازمین اور محنت کشوں کے پنشن اور اینکریمنٹس اور مدت ملازمت کے بارے میں واضح پالیسی کا اعلان کرنا شامل ہے۔ اپنے ان مطالبات کو منوانے کے لیے پرامن احتجاجی جلسوں کا پروگرام بنایا گیا۔ اس سلسلے میں مالاکنڈ کے تاریخی ظفر پارک میں 7 اگست کو جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔

ضلع مالاکنڈ کے سرکاری ملازمین کو جلسہ کے انتظامات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ضلع مالاکنڈ کے AEGA نے ملگری استاذان کے حکیم خان کو چئیرمین مقرر کیا۔ AEGA کے منتظمین عظمت اللہ، نوشاد، ٖ فدا خان، محمد وسیم، میر افضل، ارشد، محمد ستار، محمد ادریس، موسیٰ خان، سعید گل، رویدار محمد، اعجاز، عزیز احمد، خان افضل، سلیم رضا، حسین احمد، عرفان اللہ، محمد طاہر، محمد سہیل، انور خان، بادشاہ زادہ، شاہ روم، محمد فیاض اور یونس خان نے شدید گرمی اور کرونا کی مشکل صورتحال کے باوجود منظم کمپین چلایا۔ دوردراز پہاڑی علاقوں میں کارنر میٹنگز منعقد کیے۔ لوکل انتظامیہ اور ایجنسیوں نے روڑے اٹکانے کی کوشش کی لیکن وہ AEGA کے منتظمین کے مصمم ارادوں کو کمزور نہ کرسکے۔ منتظمین نے جلسہ کا انتظام جس انداز سے انجام دیا، اس نے منتظمین کے کامیاب اور پیشہ ورانہ آرگنایزیشن سکلز پر مہر تصدیق ثبت کی۔

باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ جلسہ کے تمام اخراجات مالاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع مالاکنڈ، شانگلہ، بونیر، سوات، دیر اور باجوڑ کے اساتذہ، اکونٹ آفس مالاکنڈ اور ٹی ایم اے مالاکنڈ نے برداشت کیے ہیں۔

مالاکنڈ کے چند لوکل سرکاری تنظیموں نے اس عذر پر جلسے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ اس سے سیاست کی بو آ رہی ہے لیکن جلسے کے کمپین اور جلسے کے دوران مقررین نے اپنے آپ کو مطالبات تک محدود رکھا اور اس طرح اس الزام نے خود بخود دم توڑ دیا۔

جلسہ کی کامیابی کو اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اور انتظام سے پرکھا جا تا ہے۔ میں نے بذات خود ظفرپارک میں بہت سے جلسوں میں شرکت کی ہے اور جس میں شرکت نہیں کی تو عینی شاہدین سے اطلاعات اکٹھے کیے تھے، یہ جلسہ اس پارک میں اب تک بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔ انتظام بھی مثالی تھا کیونکہ تقریباً AEGA پندرہ تنظیموں پر مشتمل ایک الائنس ہے اور سٹیج کوسنبھالنا ہر تنظیم اپنا حق سمجھتی تھی لیکن کسی بھی تنظیم کی طرف سے کوئی ناخوشگوار رویے کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔

AEGA کے تمام صوبائی قائدین نے جلسے میں شرکت کی۔ سب نے جلسے سے خطاب کیا اور انتہائی مہذبانہ انداز میں حکومت سے مطالبات منوانے کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈز کو دہرایا۔ ایک مقرر نے تو جلسے کو وزیراعلیٰ کے اپنے ڈویژن میں ایک جرگہ قرار دیا اور وزیراعلیٰ کو بحیثت پختون اس جرگہ کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی درخواست کی۔

یہ سیاسی لوگوں کا نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کا اپنی سرکار کے خلاف جلسہ تھا۔ یہ ظفر پارک کی عوامی عدالت میں سرکار بنام سرکارکا مقدمہ تھا جس میں ہزاروں سرکاری ملازمین خود اپنے وکیل بن کر وکالت کر رہے تھے اور جس دلیل اور زمینی حقائق کی بنیاد پر بات کر رہے تھے، حکومت کو چاروناچار اسے ماننا پڑے گا۔

حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ سرکاری ملازمین ہیں جو عام پبلک کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ لوگ حکومت کا انتظام چلاتے ہیں۔ جب یہ لوگ خود معاشی مسائل کا شکار ہوں گے تو وہ حکومت کا انتظام کیسے بہ حسن و خوبی سرانجام دے سکیں گے اور عام پبلک کو کس طرح مطمئن کر سکیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے جو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

اگر وزیروں، مشیروں، گورنروں، سنیٹرز، قومی وصوبائی اسمبلی کے ممبران، ججوں اور جرنیلوں کی مراعات میں اضافہ کے لیے پیسے ہیں تو ان سرکاری ملازمین کے لیے کیوں نہیں ہیں جو گرمی، سردی اور بارش کی پرواہ کیے بغیر پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھا کھا کر دفتر پہنچ جاتے ہیں اور سارا دن یا قوم کے بچوں کو پڑھاتے ہیں یا ان کے والدین کے مختلف فائلز نمٹاتے ہیں۔

حکومت کو ان بے بس اور مالی مسائل کے شکار سرکاری ملازمین کی فریاد پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور انہیں جلد از جلد ریلیف دے کر اپنی عوام دوست پالیسیوں کا ثبوت دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).