مہاراجہ کشمیر کے دور میں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار


بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 سے لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا رکھا ہے اور یہ سب کچھ صرف وہاں کے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے ہے۔ اگر ہم ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ مسلمانوں سے ایسا سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسلمانوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک 1846 سے مہاراجہ کی حکومت سے اب تک ایک جیسا ہی ہے۔

13 جولائی 1931 کا واقعہ آزادی کشمیر کی طرف پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ جس کے لئے حالات کافی عرصہ سے ہموار ہو رہے تھے۔ لیکن اس ساری جدوجہد کے پیچھے اسلام سے زیادہ معاشی ناہمواری کا زیادہ عمل دخل تھا۔ اگر ہم ڈوگرہ حکومت کا ایک جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ایک شخصی اور شاہی حکومت تھی جس میں عوام کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ ٹیکسوں کی بھرمار تھی۔ ریاست کی آمدنی کا زیادہ حصہ مہاراجہ اور ان کے خاندان پر خرچ ہوتا تھا۔ 1931 کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کی کل آبادی 3,646,243 تھی جس میں 2,817,636 یعنی 77 فیصد مسلمان تھے۔ 23 فیصد باقی تمام مذاہب کے لوگ تھے۔ باقی مذاہب میں ہندوؤں اور سکھوں کی تعداد زیادہ تھی۔ جن کی تعداد بالترتیب 736,222 اور 50,662 تھی۔

دس سال بعد 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی ان دس سالوں میں بڑھ کر 4,021,616 ہو گئی۔ اس میں 920,369 غیر مسلم اور 3,101,247 مسلمان آبادی تھی۔ سب سے زیادہ غیر مسلم جموں میں آباد تھے جن کی تعداد 765,757 تھی۔ کشمیر صوبہ میں 94 فیصد مسلمان آباد تھے جبکہ صوبہ جموں میں مسلمانوں کی تعداد 61 فیصد تھی اور لداخ اور گلگت میں بھی مسلمانوں کی آبادی 86 فیصد تھی۔ اسے بد قسمتی ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسی ریاست جس میں دو تہائی سے زیادہ مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن اس کا حکمران ایک ہندو تھا۔ جس نے اتنے زیادہ لوگوں کو پسماندہ اور غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔

Maharaja-Hari-Singh

ریاست میں مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود زبوں حالی کا شکار تھے۔ چونکہ ڈوگرہ حکومت ایک شاہی حکومت تھی۔ مہاراجہ کا تعلق چونکہ ہندو مذہب سے تھا اس لئے ہندو اور سکھ آبادی کو زیادہ ترجیح دی جاتی تھی۔ مسلمان معاشی لحاظ سے بہت پیچھے تھے۔

پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب Inside Kashmir میں کشمیر کے ا س وقت کے مسلمانوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کشمیری مسلمان تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے تھے۔ ان کی شرح خواندگی شہروں میں بمشکل تین فیصد تھی جبکہ دیہاتوں میں یہ تعداد بالکل نہ ہونے کے برابر تھی۔ سو سو دیہاتوں میں ایک آدھ ہی پڑھا لکھا مسلمان نظر آتا تھا۔ مسلمان خواتین تو بہت ہی کم خواندہ تھیں۔ یہ لوگ اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے تھے۔ سو تک گنتی گننا ان کے لئے مشکل تھا۔

میں نے خود کتنے پرانے بوڑھوں کو بیسیوں سے اشیا کی قیمتیں بتاتے سنا ہے۔ مسلمانوں میں اس درجہ ناخواندگی کے پیچھے ان کے مذہبی راہنماؤں اور ملا کا ہاتھ ہے۔ مسلمان مذہبی راہنما اور مولوی حضرات انگریزی ذریعہ تعلیم کو مذہب کے خلاف سمجھتے تھے۔ غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے مسلمان بہت پیچھے رہ گئے۔ لیکن اس کی زیادہ تر ذمہ داری ریاست اور مہاراجہ کے کندھوں پر ہے جنہوں نے انھیں اپنے مقاصد اور ان پر حکومت کرنے کے لئے تعلیم یافتہ نہیں ہونے دیا۔

یہی وجہ ہے کہ ڈوگرہ حکمرانوں نے سو سال تک بغیر کسی بیرونی مداخلت کے خطرہ اور اندرونی خلفشار کے ریاست جموں و کشمیر پر حکومت کی۔ ڈوگرہ حکمرانوں کاچالیس لاکھ لوگوں کو اس حال میں رکھنا ایک بہت ہی شرمناک کام تھا۔ برطانوی حکومت کے ریاست کے لئے مقرر کردہ ایجوکیشنل کمشنر مسٹر شارپ نے 1916 میں تعلیمی اصلاحات کے لئے کافی  اقدامات تجویز کیے تھے۔ لیکن ان پر عملدرامد عرصہ تک موخر رہا۔

ولبھ بھائی پٹیل اور مہاراجہ ہری سنگھ

ریاست میں زیادہ تر مسلمان بہت ہی غریب تھے۔ کشمیر صوبہ میں ریشم کا کام کرنے والے مسلمان معاشی بد حالی کا شکار تھے۔ ریشم کی افزائش پر ٹیکسوں کی بھرمار نے ان کا برا حال کیا ہوا تھا۔ مسلمان کسانوں کی حالت تو بہت ہی ناگفتہ بہ تھی۔ وہ گرمیوں کے چھ ماہ دن رات محنت کر کے فصل اگاتے تھے جس کا زیادہ تر حصہ ریاست کے ٹیکس۔ مالیہ اور لگان کی نذر ہو جاتا تھا۔ یہ ٹیکس اور مالیہ ادا کرنے کے لئے وہ ساہوکاروں سے قرض لیتے تھے۔

باقی کے چھ ماہ وہ ریاست سے باہر برطانوی انڈیا میں مزدوری کرتے تھے۔ دیہات میں قرضداری ایک عذاب مسلسل تھا۔ گورنمنٹ ساہوکاروں کو پوچھتی ہی نہیں تھی۔ اس لئے وہ اپنی من مانی کرتے تھے۔ مسلمان زمیندار اور کسان ہندو ساہو کاروں اور مسلمان خوجوں کے قبضہ میں تھے۔ اس دور میں چالیس پچاس روپے کا قرض اتارتے کسانوں کی عمریں گزر جاتی تھیں پھر یہ قرض ان کے بچوں پر منتقل ہو جاتا تھا لیکن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ کسانوں کی حالت فاقہ زدہ بھکاریوں جیسی ہو گئی تھی۔ وہ بنیادی ضروریات خوراک اور تن ڈھانپنے سے دور تھے۔

ڈوگرہ راج اصل میں ایک ہندو راج تھا۔ جس میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ریاست کے سب محکموں کا رویہ درشت ہوتا تھا۔ 1931 سے پہلے ریاست کے سب محکموں میں ہندو ملازمین کا غلبہ تھا۔ برطانوی فوج میں بھی مسلمانوں کو بھرتی سے دور رکھا گیا۔ زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا اور ہندوؤں کومسلمانوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔

ہندو ہر جگہ حکومت کے نزدیک تھے۔ اسی لئے ریاست میں اہم عہدوں پر قابض تھے۔ 1932 تک ریاست میں تمام سیاسی سرگرمیوں اور میٹنگوں پر پابندی تھی۔ صرف مذہبی اور کاروباری اجتماعات کی اجازت تھی لیکن ان میں بھی حکومت اور ریاست کے خلاف بات کرنا جرم تھا۔ اسی سال کشمیر کے گورنر نے زمین دارہ کانفرنس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے پر قید اور بھاری جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

چونکہ یہ ایک شاہی ریاست تھی۔ اس لئے ریاست کی آمدنی کا زیادہ حصہ مہاراجہ اور اس کے خاندان پر خرچ ہوتا تھا۔ مہاراجہ ریاست کی آمدنی عوام پر خرچ کرنے کے بجائے الٹا ان سے لگان۔ مالیہ اور ٹیکسوں کی مد میں رقم وصول کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کے اندر آنے والی ہر شے پر کسٹمز ڈیوٹی اور محصول بھی وصول کیا جاتا تھا۔ 1931 میں حکومت کی سالانہ آمدنی 27,718,000 تھی۔ جس میں زیادہ حصہ لگان۔ مالیہ۔ کسٹم ڈیوٹی۔ جنگلات۔ ریشم کے کیڑوں کی افزائش اور اس سے جڑی صنعت اور سڑکوں پر ٹیکس سے حاصل ہوتی تھی۔ پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب میں اس کی تفصیل اس طرح درج کی ہے۔

مالیہ اور لگان 6,432,000
کسٹم ڈیوٹی 6,226,000
جنگلات کی آمدنی 6,007,000
محصولات سڑکیں اور عمارات 1,364,000
ریشم کے کیڑوں کی افزائش 2,550,000
آب پاشی محصولات 573,000
صنعتکاری 820,000

ریاست کی اس آمدنی میں سے ریاست کے عوام یا اس کی تعمیر و ترقی پر صرف 6,120,000 روپیہ خرچ کیا گیا۔ ریاست جموں و کشمیر ایک زرعی ریاست تھی جس کی نوے فیصد آبادی دیہات میں رہتی تھی۔ جو کہ ایک ناگفتہ بہ زندگی گزار رہی تھی۔ اس وقت یورپ۔ برطانیہ اور امریکہ کی حکومتیں بہت زیادہ ترقی یافتہ تھیں اوراپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اپنے عوام پر خرچ کرتی تھیں۔ خود حکمران اپنے اوپر بہت کم خرچ کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں کشمیر ایک انتہائی پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ریاست تھی۔ لیکن اس کے وزیر اعظم اور گورنروں کی تنخوائیں ان ترقی یافتہ ملکوں کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ انہی حالات کا تسلسل کشمیر کو ایسی سمت لے گیا جہاں 13 جولائی کا واقع پیش آیا جس کو کشمیر کی آزادی یا سیاسی بیداری کی طرف پہلا قدم کہہ سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).