یوم آزادی پر تجدیدعہد وفا!


یوم آزادی جب بھی آتا ہے، ایک عہد یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کے لیے دی جانے والی قربانیوں اور لازوال جدوجہد سے عبارت ہے۔ پاکستان اس لیے معرض وجود میں آیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک اسلامی مملکت ملے گی جس میں اسلامی نظام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکیں گے۔ گویا یہ مسلمانوں کی اس مقصد کے لیے دی گئی قربانیوں کو یاد کرنے، اس وعدہ کو نبھانے اور اس کے احساس وفا کا دن ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر ہربار کی طرح اس بار بھی آزاد وطن کی اہمیت اور قدرو منذلت کا احساس مزید شدت سے اجاگر ہورہا ہے۔

ہمارے بزرگوں کی جانب سے ملک حاصل کرنے کی تگ ودو، جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف میں سر تسلیم خم ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں ایک خود مختار نظریاتی ریاست ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ حاصل ہوئی تھی، آج سے 73 سال قبل، جس طرح ہمارے آبا و اجداد کے لیے ایک مسلم ریاست کا وجود لازم وملزوم تھا، اسی طرح ہمارابھی فرض ہے کہ ہم تحریک پاکستان کے قائدین اور آبا و اجدادکے چھوڑے ہوئے ترکے اور پیارے وطن کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ تمام ذمہ داریاں پوری کریں، جو اس کی تعمیر و تشکیل کے لیے ضروری ہیں، یہ صرف کسی ایک فرد کانہیں، ہر اس شخص کا فرض ہے، جو اس مملکت خداداد میں پیدا ہوا اور ا س ملک کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔

یہ امرواضح ہے کہ 14 اگست 1947 ء کو مسلمانان برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت 90 سال کی طویل جدوجہد کے بعد خالصتاً آئینی و جمہوری طریقے سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریز و ہندو سامراج سے آزادی حاصل کی تھی۔ مسلمانوں نے آزاد ریاست اس عہد کے ساتھ حاصل کی تھی کہ یہ مسلم امہ کے لئے نظریاتی تجربہ گاہ ہوگی اور مسلمانان ہند کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہوگی، جہاں تمام مسلمان اپنی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اقدار کے مطابق آزادانہ زندگی گزاریں گے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ایک ایسا طبقہ زور پکڑتا جا رہا ہے جو اس ملک کو سیکولر ثابت کر نے پر بضد ہے، یوم پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی حقیقی ذمہ داری کو نبھائیں اور اس عہد کو پورا کریں جو قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمدعلی جناح کے ساتھ دیگر مسلمان لیڈروں نے کیا تھا کہ یہاں ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی مملکت ہوگی، پاکستان کو آج جتنے بھی داخلی و خارجی خطرات درپیش ہیں، ان سب کا حل قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد پر عمل پیرا ہونا ہے۔

یوم آزادی کے دن تجدید عہد وفا کرتے وقت ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم نے اس ملک کو کیا دیاہے، ہم ہر سال تجدید عہد وفا کے عزم کے ساتھ آزادی کا دنمناتے وقت جب گزرے سال پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں پستی، زبوں حالی اور پہلے سے زیادہ ابتری نظر آتی ہے، وہ ملک جو علم، حلم، رواداری، اعتدال، ایثار، یقین محکم، استقامت جیسی اعلیٰ اسلامی، انسانی اوصاف کے مظاہرے سے حاصل کیا گیا، اس میں اعلیٰ و ارفع اوصاف آج ناپید ہیں۔

علم کی جگہ جہالت اور حلم کی جگہ کوتاہ نظری و عدم برداشت نے لے لی ہے، رواداری، اعتدال، ایثار، یقین محکم جیسے جذبے ہوس زر، خودغرضی اور ابن الوقتی کی نظر ہوگئے ہیں، اسی لیے قائداعظم محمد علی جناح جیسی مخلص قیادت رکھنے والی قوم کرپٹ کاروباری اور منافع خور ذہنیت کے نرغے میں آئی ہوئی ہے۔ کیا بانی پاکستان اور لاکھوں اسلامیان برصغیر نے جان، مال، عزت کی قربانی دے کر اس لیے پاکستان بنایا تھا کہ چند درجن خاندان اور ان کی عیاش اولادیں 98 فیصد عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر قومی وسائل اپنی ذات، جماعت اور خاندان کو مضبوط کرنے کے لئے ذاتی تصرف میں لائیں، آخر کب تک لیکشن کا ڈھونگ رچاکر فاقہ مست عوام سے ووٹ کی شکل میں لوٹ مار کا لائسنس حاصل کیا جاتا رہے گا۔

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ وطن عزیز کے حالات آئیڈیل نہیں، لیکن یہ سوچتے وقت ان حالات اور واقعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتاکہ جن کا اس عرصے میں قوم کو سامنا رہا ہے۔ قوموں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس قوم میں مشکلات سے لڑنے کا جذبہ آج بھی اتنا ہی پختہ ہے، جتنا آزادی کے وقت تھا، بس ایک باصلاحیت دیانتدار قیادت کے ساتھ سمت درست کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بعد اس قوم کو دنیا کی کوئی قوت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی، لیکن بحیثیت قوم ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔

ہم یوم آزادی کے موقع پر بھی مخصوص جوش و جذبہ کو بھول کر بے ہنگم شور شرابے کا شکار نظر آنے لگے ہیں، ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ اس تاریخی دن کا پس منظر کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ ہمارے آبا و اجداد نے کتنی جدوجہد، کتنی محنت و قربانی سے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس خطے کو حاصل کرنے کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، آزادی کے متوالوں نے اپنے بھرے پورے مکانات چھوڑ دیے، ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کردیں، ہزاروں عفت مآب خواتین کی چادر عصمت کو تار تار کر دیا گیا، ماؤں کے سامنے ان کے ننھے منے اور معصوم جگر گوشوں کو ذبح کیا گیا، یہ سب کس کے لیے کیا گیا تھا؟

یہ سب کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا، اس وقت گلی گلی میں نعرہ گونجتا تھا ”پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ“ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پورے برصغیر کے مسلمان ایک ہوگئے تھے، لیکن اب پتہ نہیں وہ جذبہ کہاں چلا گیا ہے؟ اب وہ جوش و خروش، وہ جذبہ جنوں ماند پڑ گیا ہے، اس کی وجہ عوام کے درمیان پھیلائی گئی غلط فہمیاں ہیں کہ جن کے سبب لوگ ذ ات پات، فرقے اور مسلکوں میں بٹ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد دہشت گردی کی وارداتوں میں معصوم اور بے گناہوں کا اجتماعی قتل، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، خود کش حملے معمول کی بات بن گئی ہے۔

اس صورت حال میں ازلی دشمن کو بھی حوصلہ ہوا کہ ایک بار پھر سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی ہے۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ اب اس ملک میں کوئی متحد قوم، کوئی ملت نہیں رہتی، بلکہ منتشر انسانوں کا ہجوم ہے، جیسے آسانی سے ایک بار پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ ا جاسکتا ہے، لیکن وہ بھول گیا کہ یہ قوم پے در پے سانحات اور بحرانوں کے باعث مشکل میں ضرور ہے، لیکن اپنی آزادی و خود مختاری سے غافل نہیں ہے، ہمارا جذبۂ جنوں کچھ کمزور ضرور ہوا، لیکن ختم نہیں ہوا ہے کہ دشمن کی کسی کارروائی کا منہ توڑ جواب نہ دے سکے۔ آئیے 14 اگست یوم آزادی کے موقع پر عہد وفا کی تجدید کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور وعدہ کریں کہ یہ ملک جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا، ان مقاصد کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).