سیاسی ثقافت اور ذاتی تعلقات


یوں تو معاشرے میں انسان مختلف تعلقات سے منسلک رہتا ہے ذاتی تعلقات کاروباری، سماجی تعلقات، قبائلی تعلقات مذہبی تعلقات وغیرہ۔ جبکہ یہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کیونکہ تعلقات کا گہرا کم یا ختم ہونا بھی وقت اور حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ مگر ان میں ایک ایسا تعلق بھی ہے جو سیاسی تعلق کہلاتا ہے جس کی اس دور میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ یہ واحد تعلق ہے جس نے تمام تعلقات کو یا تو پابند کر دیا ہے یا پھر ختم کر دیا ہے۔ اس نے کئی ذاتی تعلقات پر اثر ڈالا ہے کئی سماجی تو کئی کاروباری تعلقات پر بھی۔

چونکہ آج کے دور میں آپ کا سیاسی ہونا مطلب کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی شخصیت کے ساتھ منسلک ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ پھر چاہے آپ طالب علم ہیں، یا نوجوان بیروزگار یا پھر سرکاری ملازم سے لے کر کوئی کاروباری شخصیت بھلے کسی بھی شعبہ زندگی سے آپ منسلک ہیں۔ شاید ملک کے ہر کونے کا یہ حال ہو مگر جہاں میں رہتا ہوں وہاں یہ تعلق بچاؤ کے طور پر مفاد کے طور پر یا پھر کسی مجبوری کے عوض قائم کئیے جاتے ہیں اور نبھائے بھی جاتے ہیں۔

سیاسی تعلقات کے نقصانات شاید اتنے نا ہو مگر فوائد کی لسٹ طویل ہے۔ جس میں اگر آپ بیروزگار ہیں تو آپ کو یہ تعلق کئی روزگار دے گا، اگر آپ کاروباری شخصیت ہیں تو یہ آپ کے کاروبار میں وسعت دے گا پھر چاہے آپ کسی بھی قسم کا کاروبار کرتے ہیں۔ اگر آپ سرکاری ملازم ہے تو آپ اپنے فرائض سے غافل رہ کر دیگر کام سر انجام دے سکتے ہیں یا پھر ملازمت میں ترقی بھی اسی تعلق سے منسلک ہے وغیرہ۔ جبکہ نقصانات میں اپنوں کی ناراضگی، رشتہ دوسری سیاسی پارٹی کا ہونے کے باعث نہ ملنا، سلام دعا کا نا ہونا، ایک ہی محلے میں رہ کر ایک دوسرے کے منہ نہ لگنا، زبردستی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا، اگر آپ جس پارٹی سے ہیں اور وہ اقتدار میں ہو تو پھر مزے ہیں۔ جس میں کلاس فور کے ملازم کے ٹرانسفر سے لے کر آپ کے بچے یا بھائی کی اسکالرشپ کینسل کروانا، لیپ ٹاپ اسکیم یا کسی سیاسی فنڈ سے آپ کو محروم رکھ کر سیاسی تسکین محسوس کرنا وغیرہ شامل ہے۔

ملکی سیاست میں بھی شاید ایسا رجحان ہو سیاسی تعلقات کے تحت مگر میں اس تعلق کو ضلعے یا تحصیل لیول کے سیاسی معملات یا تعلقات کو زیر بحث لارہا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں ایک تعزیتی ریفرنس پر گیا۔ وہاں پہلے سے کسی سیاسی پارٹی کے تقلید کار بیٹھے تھے۔ میرے ساتھ تعزیت کرنے والے افراد اسی انتظار میں تھے جب تک متعلقہ گروپ یا سیاسی پارٹی کے لوگ چلے نہیں جاتے تب تک ہم اپنی جگہ سے نہیں ہلینگے۔ مسئلہ تعزیت کا نہیں تھا نا ہی ذاتی رنجشوں کا مسئلہ صرف مخالف پارٹی کا تھا۔ کیونکہ کئی پرنٹ میڈیا پر تعزیتی ریفرنس میں ہمارا فوٹو ان کے ساتھ نہ چھپے اور خبر دوسرا رخ اختیار کرلے۔

پہلے یہ مسائل عقیدے یا مذہبی معاملات میں تعلقات کی حد تک اس نوعیت کے تھے۔ لیکن اب اس طرف توجہ نا ہونے کے برابر ہے جوکہ ایک اچھا رویہ ہے مگر سیاست میں تعلقات میں فائدے اور نقصانات میں یہ رویہ پروان چڑھ رہا ہے۔ جس کی جھلکیاں یقیناً ہر قصبے شہر تحصیل یا ضلع میں موجود ہوں گی کسی سیاسی گروپ یا پارٹی کی شکل میں جس میں نمبر گیم، اسکیم گیم، کریڈٹ گیم، تیرا میرا، صرف میرا، خبروں کی جنگ، ترقی کے جھال تو کئی سیاسی دمال کے ساتھ۔

بعض اوقات سیاسی تعلقات میں گروپ بندی والا سین بھی دلچسپ ہوتا ہے جو سیاسی تعلقات میں ایک ہی پارٹی یا سیاسی شخصیت کے قریب کمپیٹیشن والی جنگ ہوتی ہے۔ جیسے ایک گروپ دوسری گروپ کی باتیں اپنے سیاسی لیڈر کے منورنجن اور لیول ڈوان کرنے کے لیے شیئر کرتے ہیں۔ جس میں کسی دوسری پارٹی کے فرد کی شادی کی تصاویروں سے لے کر کسی عوامی مسئلے پر اجتماعی عوامی پروٹیسٹ کی تصاویریں یا پھر ایک دوسرے کے ماضی کی کہانیاں یا نشانیاں شیئر کرنا شامل ہیں۔ کبھی کبھار تو پارٹی اگر اقتدار میں ہو تو اگر کسی عوامی مسئلے پر اسی پارٹی سے سیاسی تعلقات رکھنے والے فرد نے کوئی رائے دی تو وہ وبال جان بن جاتی ہے۔

سیاسی تعلق کسی بھی فرد کا کسی بھی پارٹی یا سیاسی شخصیت سے ہو سکتا ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا یہ ہر شخص کی ذاتی رائے ہے۔ مگر اس تعلق کی وجہ سے کسی فرد کو سماجی ذاتی تعلقات کی اہمیت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ کیونکہ ہر تعلق کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ بالخصوص جب علاقے کے لوگوں یا ترقی کی بات آئے یا کسی ہمسائے اپنے یا علاقے کے فرد پر مصیبت آئے یا عوامی بنیادی مسائل کے حل کی بات ہو تو سیاسی تعلقات کو علاقے کے مفادات کے لیے استعمال کرنا زیادہ ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).