یوم آزادی پاکستان اور مستقبل کے تقاضے۔ ۔ ۔


قوم ایک دن کے بعد یعنی جمعۃ المبارک 14 اگست کو 73 واں یوم آزادی روایتی جوش و جذبے سے منانے جا رہی ہے۔ زندہ قومیں اپنے ملک کی آزادی کا جشن تجدید عہد کے ساتھ سجدہ شکر ادا کر کے منایا کرتی ہیں۔ قوم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں آزادی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی۔

اس آزادی کی راہ میں ہمارے بزرگوں نے بے مثال قربانیاں پیش کی تھیں۔ لاکھوں مردوزن کو آزادی حاصل کرنے کے لئے آگ و خون کے دریا میں سے گزرنا پڑا

اور لاکھوں نفوس اس آگ و خون کے دریا سے گزرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے لیکن قافلہ آزادی رواں دواں رہا اور آزادی حاصل کر کے ہی دم لیا۔

آزادی کا حصول یقیناً ایک بہت مشکل مرحلہ تھا اس میں خداوند تعالیٰ کی رحمت و رہنمائی و مدد حاصل تھی۔ جس نے آزادی جیسی نعمت سے نوازا اس میں خداوند تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہو گا۔ کل جو گزر گیا حصول آزادی پاکستان کی جدوجہد تھی اور آج تعمیر و وطن کو اس جدوجہد کی ضرورت ہے۔

آج پھر ہمیں تحریک آزادی پاکستان جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔

ہمیں قومیتوں سے پھر ایک قوم بننا ہو گا۔ کہ ہم نے آج تک جو دانستہ یا نادانستہ غلطیاں اور کوتاہیاں کی ہیں ان کا ازالہ کیسے کرتا ہے۔ حکمران یہ جان لیں اور ان کو سوچنا ہو گا۔ کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ آزادی کے بعد آج تک کے سفر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم آگے نہیں پیچھے کی جانب گامزن ہیں 72 سال ہم نے غفلت کی نظر کر دیے ہیں۔ یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے جس کا خواب ہمارے آبا و اجداد نے دیکھا تھا

اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دی تھیں خداوند تعالیٰ نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ لیکن ہم نے ان کو بروئے کار لانے کی بجائے ملک کو قرضوں کی دلدل میں مبتلا کر رکھا ہے اور آج بھی دوبارہ مستند اقتدار پر آنکھ ٹکائے بیٹھے ہیں

سوال اٹھتا ہے کیا قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے اس پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں انصاف امیروں کی لونڈی اور داشتہ ہے۔ ۔ ۔

کیا ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ تحریک آزادی کے دنوں میں قائداعظم سے جب بھی سوال پوچھا جاتا تھا تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں خداوند تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل قرآن کی شکل میں آئین اور دستور عطاء فرما دیا ہے۔ یہی پاکستان کا آئین اور دستور ہو گا۔ ہمیں کسی اور دستور کی ضرورت نہیں۔ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔

سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ملک خداداد پاکستان اسلامی جمہوری کہلوانے کے اہل نہیں۔ پاکستان کی خاطر جنہوں نے قربانیاں دیں ان کی نسلوں کو دو وقت کی روٹی کی فکر لاحق ہے۔ ۔ ۔

ہمارے سابقہ حکمرانوں کے طرز حکومت اور ان کی زندگیوں پر نظر دوڑائیں جو عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پاکستان کی قدر منذلت کا کیا احساس ہو گا جنہوں نے پاکستان کی آزادی کے لئے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا۔

ملک کے سیاسی و حکومتی قائدین کو سوچنا ہو گا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ اراضی حاصل کرنے کے لئے بانیاں پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال نے ضرورت محسوس کی تھی۔ اگر ہم آج بھی خود انحصاری کے حصول کے لئے پر عزم ہو جائیں تو قدرت نے ہمیں وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ جنہیں بروئے کار لاکر قوم و ملک کی تقریر بدلی جا سکتی ہے۔ ۔ ۔

پاکستان کی بقا صرف اور صرف انصاف اور قانون کی بالادستی سے ہی ممکن ہے اگر انصاف کا مجوزہ لولا لنگڑا نظام قائم رہا تو یہ ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا جو عدم تحفظ کا احساس لوگوں میں روز بروز بڑھ رہا ہے اس کے بڑے خطرناک نتائج نکلیں گے صاحب ثروت اور مالدار لوگ پہلے بیرون ملک جانا شروع ہوچکے ہیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا یہ ملک رسی گیروں اور بیرونی ملکوں کے اہلکاروں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ ۔ ۔

ملک کی بقاء اور صرف قانون کی بالادستی میں ہے یوں تو قانون موجود ہے لیکن آئین کی ترامیم نے اس کو مفلوج کر دیا ہے۔ ۔ ۔

اللہ پاکستان کو قائم و دائم رکھے کیونکہ آزادی سے بڑھ کر نعمت کوئی نہیں ہے یہ بات آپ فلسطین شام اور کشمیر اور برما کے مسلمانوں سے پوچھیں کہ وہ آزادی حاصل کرنے کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔ ۔ ۔

خدارا اپنے وطن سے محبت کریں وطن ہے تو ہم ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پاکستان زندہ باد ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جشن یوم آزادی پائندہ باد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).