کتا کہانی


قرائن بتاتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں حقیقتاً کتوں کی حکمرانی ہے۔ خاکم بدھن ہمارا اشارہ سو فیصد اصل کتوں کی ہی طر ف ہے۔ اس پر سیاسی موشگافی سے پرہیز کیا جائے۔ کسی شاعرہ نے کہا تھا کہ :۔ کتے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔ بات میں واقعی وزن ہے لیکن۔ : بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

ا ب دیکھئے ناں لاڑکانہ، نوڈیرو، سانگھڑ، نواب شاہ، سکھر اور دیگر شہروں سے کرکٹ کمنٹری کی طرح روزانہ خبریں آ رہی ہیں کہ آج فلاں شہر میں سات بچوں اور تین خواتین کو کتوں نے کاٹ لیا جن میں بیشتر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہو کر بالآخر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کیونکہ ان شہروں کے ہسپتالوں اور شفا خانوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکیسن مہیا نہیں تھی۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے بلکہ یقین ہے کہ صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کا کتوں سے کوئی خفیہ معاہد ہ ہے اور کتے محکمے کو بھتہ دیتے ہیں کیونکہ جس سرعت سے کتوں کے کاٹنے کے واقعات اور ویکسین کی عدم دستیابی کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محکمہ صحت اور کتوں میں کوئی خفیہ گٹھ جوڑ ہے۔

مدتوں پہلے کی حکومتوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم چلائی تھی جس کے نتیجے میں آبادی گھٹنے کی بجائے بڑھتی گئی کیونکہ خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کمزور بنیادوں پر تھی جبکہ الحمد اللہ ہمارے علماء کرام نے جمعہ کے وعظوں میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جس نے مسلمانان پاک سرزمین میں ایک ولولہ تازہ پیدا کیا اور دین کے متوالوں نے کشتوں کے پشتے اڑا دیے۔ اور اب ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم دنیا میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوتوں میں صف اول میں کھڑے ہیں: ہم سا ہو تو سامنے آئے۔

وطن عزیز میں آبادی کو کنٹرول کرنے میں پہلے دہشت گردوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دھماکوں پہ دھماکے کر کے لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا۔ پھر قومی شاہراہوں پر تیز رفتار بسوں، گاڑیوں، ٹرکوں، ٹریکروں اور ریل گاڑیوں نے ہلاکتوں کی ذمہ داری سنبھال لی۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کی اب ذمہ داری کتوں نے سنبھال لی ہے۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، اب وہاں ہر گلی اور محلے میں آپ کو کثیر تعداد میں کتے نظر آئیں گے۔ ان کتوں کی قابل رشک صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کراچی نے کتا نوازی میں عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔

آپ موٹر سائیکل پر ہوں یا گاڑی میں یا پیدل، کتا فوراً آ پ کی طرف لپکے گا۔ بلکہ ہر گلی میں کوئی نہ کوئی کتوں کا سیکٹر انچارج ہوتا ہے جسے آپ کا گلی میں سے گزرنا ناگوار گزرتا ہے۔ بعض جہاں دیدہ کتے شب بیداری کے بعد دن چڑھے کسی گلی کے درمیان استراحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ آپ لاکھ ہی ہی شی شی کریں، مگر یہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔ اگر آپ کوئی کنکر وغیرہ ماریں گے تو یہ شان بے نیازی سے ایک آنکھ کھول کر آپ کی بدتہذیبی پر تف کریں گے اور بادل نخواستہ راستہ چھوڑ دیں گے۔ لیکن کچھ لمحوں بعد پھر گلی کے عین درمیان اپنے رنگین خواب کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیں گے جہاں سے منقطع ہوا تھا، پھر بڑے سبھاؤ سے لیٹ جائیں گے۔

جب سے ٹی وی چینلوں کی وبا پاکستان میں آئی ہے، کوئی کام خفیہ رہا ہی نہیں۔ اب دیکھئے، چینلوں والے دکھاتے ہیں کہ سندھ کے شہروں، گاؤں، گوٹھوں اور محلوں میں قائم شدہ شفا خانوں میں بھینسیں جگالی فرما رہی ہیں یا گدھوں کا راج ہے۔ بعض شفا خانوں میں منشیات کے اڈے ہیں۔ کہیں گٹکا تیار ہو رہا ہے۔ کہیں دیسی شراب بھنگ چرس افیون کا ڈسپلے سنٹر قائم ہے۔ نشہ کرنے والے حضرات شان بے نیازی سے اوندھے پڑے ہیں۔ شفاخانوں تک ہی بات ختم نہیں ہوتی۔ بے شمار سرکاری سکولوں میں چارہ کاٹنے والی مشینیں اور دیواروں پر اپلوں کی بہار نظر آئے گی۔ البتہ ان سکولوں میں کام کرنے والی غیر مرئی مخلوق باقاعدگی سے تنخواہیں وصول کر رہی ہے اور حکومت وقت شاداں و فرحاں ہے کہ شعبہ تعلیم پر اربو ں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

تو ذکر ہو رہا تھا کتوں کا۔ ایک بڑے صوفی کا ارشاد ہے کہ کتوں میں سات ایسی صفات ہوتی ہیں کہ اگر انسان انہیں اپنا لے تو اشرف المخلوقات کے اعلی مقام پر فائز ہو سکتا ہے۔ ہمیں ان صفات کا تو علم نہیں لیکن ہم نے سرکاری محکموں میں کتوں کی ایک مشترکہ صفت دیکھی ہے۔ وہ ہے کتا پن۔ اس صفت کے ذریعے ماتحت عملے کو کولہو میں پلوایا جاتا ہے۔ اس صفت کے حامل افسران سب سے پہلے ضمیر جیسی بے مقصد چیز کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کر دیتے ہیں۔

چنانچہ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں راہزن۔ یعنی جو شخص ضمیر سے جان چھڑوا لیتا ہے وہ اور اس کی آنے والی نسلیں خوش حال ہو جاتی ہیں۔ باقی رہا جزا اور سزا کا مسئلہ۔ آج تک کسی مرنے والے نے قبر کا احوال بتانے کی زحمت نہیں کی۔ ضمیر فروشوں کے جنازے بھی بہت اہتمام سے اٹھائے جاتے ہیں۔ سوئم، دسواں اور چالیسواں پر رونق انداز سے منایا جاتا ہے۔ اور پھر ضمیر فروشوں کی منڈی میں ایسے قلم فروش مل جاتے ہیں جو مرحوم کی انسانیت کے لئے خدمات میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں صوبہ سندھ میں جب کتوں کی ماورائے قانون حرکتوں کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا تو عوام الناس نے مطالبہ کیا کہ کتا مار مہم شروع کی جائے۔ اس موقع پر ایک بڑی پارٹی کے نوخیز لیڈر نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر اپنے پالتو کتوں کے ساتھ تصویر لگائی اور کہا کہ ہماری پارٹی کتوں کے تحفظ کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر ے گی۔ چنانچہ کراچی کارپوریشن نے اپنے عملے کے ذریعے کتوں کو گرفتار کرنے کی مہم شروع کی۔ بہت سے اہلکار کتوں کو گھیرتے اور کچھ لوگ بوریاں لے کر ان کو گرفتار کرنے کے سعی لاحاصل کرتے۔ اس آنکھ مچولی میں کتے تو کیا قابو آتے البتہ کارپوریشن کے متعدد اہل کاروں نے کتوں کے غیظ و غضب کا شکار ہو کر جان جان آفریں کے حوالے کر دی۔

کتوں کی ایک خصوصیت کے تو ہم بھی معترف ہیں کہ وہ حسب نسل سندھی مہاجر پٹھان اور بلوچی کے مخمصے میں نہیں پڑتے۔ جسے چاہتے ہیں بلا امتیاز رنگ و نسل کاٹ لیتے ہیں۔ پہلے زمانے میں جب کتا کاٹتا تھا تو اس کتے کی غیر نصابی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔ کدھر سے آیا، کدھر گیا وہ۔ لیکن اب کتے بھی بہت مردم شناس ہو گئے ہیں۔ کاٹنے کے بعد کتوں کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔ تھانے والے تو انسانوں کی شناخت پریڈ کروا لیتے ہیں۔ لیکن کتوں کی شناخت پریڈ کی سہولت تادم تحریر وطن عزیز میں متعارف نہیں ہوئی۔

ہمارے ہاں کتوں کی قدر و منزلت کا ادراک صرف اشرافیہ کو ہے۔ بیرونی ممالک سے اعلی نسل کے خاندانی کتے درآمد کیے جاتے ہیں۔ ان کی خوراک رہائش صحت و تندرستی کے لئے ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں کتے چھچڑے وغیرہ سے بہل جاتے تھے لیکن اب شہروں شہروں ان کی ڈبو ں میں بند خوراک اور طبی معائنے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں: کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔ رہے تھر اور دوسرے پسماندہ علاقوں کے افلاس زدہ انسان۔۔۔ تو یہ ان کی قسمت اس میں بھلا اشرافیہ کا کیا قصور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).