پاکستان کا سفارتی محاذ اور پاک سعودیہ تعلقات۔ ۔ ۔


گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملکی داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ خارجہ امور میں بھی بالخصوص پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو لے کر کافی زیادہ ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ خواہش تو یہ تھی کہ پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کالمز کی ایک سیریل لکھتا لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر مختصراً اسی کالم کے اندر ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کروں گا۔

بلاشبہ سعودی عرب پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے۔ خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور سعودی عرب میں موجود دیگر مقامات مقدسہ پر ہماری جانیں بھی قربان ہیں۔ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی مقدس گلیاں ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ ہمارے دل سعودی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی دستے آج بھی سعودی عرب کے دفاع کے لئے وہاں موجود ہیں۔ گویا ہم حرمین شریفین کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک بہت سے ایسے مواقع آئے جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آیا سعودیہ نے پاکستان کی مدد کی۔ سعودی حکمرانوں کے پاکستانی حکومتوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے ہی مثالی رہے ہیں۔ میاں نواز شریف فیملی کو پاکستان سے لے کر جانا ہو یا کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کو شمولیت سے منع کرنا ہو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سعودی عرب کا پاکستان کے داخلی معاملات میں بھی اہم کردار رہا ہے۔

ایران پاکستان کا ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے۔ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے وجود کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ تعلقات عرصہ دراز سے کشیدہ رہے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ آتے رہے لیکن پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں کافی توازن رکھا۔ ایران پاکستان تعلقات الگ موضوع ہے جو ایک مکمل کالم کا متقاضی ہے جسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔

گزشتہ دو برس کے دوران دنیا بھر کے اندر سفارت کاری کے میدان میں بہت بدلاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ معیشت کسی بھی ملک کے سفارتی تعلقات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مفادات کی وجہ سے کل کے دشمن آج کے دوست، آج کے دشمن کل کے دوست بنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں ان حالات سے پوری دنیا متاثر ہوئی وہاں پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بھی ان اثرات کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔

اؤ آئی سی دراصل دنیا بھر میں موجود ستاون مسلم ممالک کی ایک نمائندہ تنظیم ہے جس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد مسلم امہ کے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا اور غیر مسلم ممالک کی طرف سے مسلم ممالک پر ہونے والے جبر کی صورت میں اقوام عالم پر اس جبر کے خاتمہ کے لئے نہ صرف دباؤ بڑھانا ہے بلکہ متاثرہ مسلم ملک کی ہر طرح سے سپورٹ کرنا بھی ہے۔ سعودی عرب او آئی سی کا سربراہ اسلامی ملک ہے۔

مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات شروع دن سے ہی کشیدہ رہے ہیں حتیٰ کہ اس پر دونوں ممالک کے مابین جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں اور ایل او سی پر گزشتہ تہتر برس سے جھڑپیں مسلسل جاری ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ہی کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔ جس پر پاکستان نے سعودی عرب سے بارہا درخواست کی کہ کشمیر کے حالیہ صورتحال پر او آئی سی کے تحت مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے تاکہ کشمیر کے معاملے پر مسلم امہ یک آواز ہو اور دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جائے۔

پاکستان کے بارہا روابط کے باوجود سعودی عرب کی جانب سے اس پر کوئی خاص ردعمل نہ دیا گیا۔ جس پر بالآخر گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں انٹرویو کے دوران سعودی عرب سے درخواست کی کہ کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ اگر سعودی عرب ایسا نہیں کرتا تو میں مجبور ہوں کہ اپنے وزیر اعظم سے درخواست کروں کہ دیگر آپشنز پر غور شروع کر دیا جائے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ ایک ایسا بیان تھا کہ جس کی سعودی عرب نے کبھی توقع نہ کی تھی۔ بعض ذرائع کے مطابق سعودیہ کو ایک ارب ڈالر قرضے کی واپسی بھی شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے تناظر میں ہی کی گئی۔ شروع دن سے کشمیر پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ بیان انتہائی مجبوری کی حالت میں دیا گیا۔ اس بیان کے بعد پاک سعودی تعلقات میں سردمہری دیکھنے میں آئی ہے۔ جس کے بعد پاکستان جیسے مقروض ملک کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی معیشت پہلے ہی بہت کمزور ہے۔

سعودی عرب کے اندر ایک ملین سے زائد اوورسیز پاکستانی موجود ہیں۔ ایسی صورت میں نہ صرف ان کے لئے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ دیگر عرب ممالک میں موجود پاکستانی بھی مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت پہلے ہی بے روزگاری کا شکار ہے لہٰذا سفارتی تعلقات میں ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

قطع نظر اس کے کہ پاکستان معاشی مسائل کا شکار ہے پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بھی ہے جس نے تمام مسلم ممالک کو بہرحال ساتھ لے کر چلنا ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈپلومیسی یعنی سفارت کاری میں بہت سے مواقع پر آپ کو اپنا سخت ترین موقف زبان کی بجائے اپنی باڈی لینگویج اور ڈپلومیسی کے دیگر ٹولز کے ذریعے دوسرے ملک تک پہنچانا ہوتا ہے۔ جدید دور کی سفارتکاری کی مثال پانی کے اوپر تیرتی ایک بطخ کی مانند ہوتی ہے۔ تیرتی ہوئی بطح کا پانی سے اوپری حصہ تو ہمیں نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن نیچے وہ جس تیزی سے پیر چلا رہی ہوتی ہے وہ نظر نہیں آتا۔ جدید دور کی سفارت کاری کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔

بظاہر اپنے لئے تمام آپشنز کھلے رکھے جاتے ہیں اور پس پردہ سفارت کاری کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاتا ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان کے سفارتی تعلقات میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ چین دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے۔ پاک چین سی پیک منصوبہ مشرق وسطیٰ کے لئے ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں۔ ایران نے نہ صرف سی پیک میں دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ چہابہار بندرگاہ سے بھارت کو نکال باہر کیا ہے اور چین نے ایران کے اندر بھی سرمایہ کاری کر دی ہے۔

پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں نہ صرف ہمیشہ کی طرح ایک توازن برقرار رکھے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات متوقع ہیں کیونکہ طالبان افغان معاہدے میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے جس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا عنقریب متوقع ہے جس سے خطے میں امریکہ کا اثر قدرے کم ہو جائے گا۔ چین افغانستان کے استحکام کے لئے بڑی سرمایہ کاری کا موقع ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).