کٹھمنڈو، بدھاناتھ اسٹوپا اور سنہری مینار پر دور تک دیکھتی آنکھیں


شام رفتہ رفتہ اتر رہی تھی اور سورج کی روشنی گویا بس جانے کو ہی تھی اور اجنبی شہر کٹھمنڈو کا وہ اسرار بھرا گوشہ جہاں اک منتر کے زور زور سے پڑھنے کی آواز گونج رہی تھی اوم مانی پدمے ہم، اوم مانی پدمے ہم۔ ہم بھی اس دائرے کے گرد اک بہاؤ کا حصہ بنے اس دائرے میں چلتے ہجوم کا حصہ تھے۔

پشوپتی ناتھ مندر کے وسیع وعریض احاطے کے گویا اختتام سے قبل بھاگ متی دریا کے کنارے سے اٹھتی ہوئی پہاڑی ڈھلانیں اوپر جا کر پہاڑی کی چوٹی والے سبز اور زرد گھاس والے میدان سے مل جاتی تھیں اور وہاں میں تھا جو کٹھمنڈو شہر کو گویا اک بلندی سے دور تک پھیلے ہوئے منظر کو اک سحرزدہ کی طرح دیکھتا تھا اور وہاں سے قریب میں کچھ واضح، کچھ دور دھندلائی سی عمارتیں نظر اتی تھیں، پھر دور برف پوش پہاڑوں کے ہیولے جو گویا بادلوں سے کبھی پوشیدہ ہوتے تھے اور کبھی دھندلے سے منظر کا روپ دھار لیتے تھے۔

میں اک منظر کی تلاش میں وہاں تھا۔ کیوں کہ میں جانتا تھا گرچہ میری انکھیں ابھی انہیں دیکھ نہیں پارہی مگروہ آنکھیں اس سنہری مینار کے ہر رخ پر براجمان ہر اک سو دیکھتی ہیں سورج کی پہلی کرن جب اس دائرے کا طواف کرتی ہے تو سنہری مینار کی جگمگاہٹ گویا زمین پر چاندی بکھیر دیتی ہیں۔ تب سے سورج کی آخری کرن کے زمین پر سونا بکھیر دینے تک، اور اس کے بعد وہ آنکھیں پھر اندھیرے میں بھی شہر پر نظر رکھتی ہیں۔

بلند و بالا سنہری مینار جو سورج اور چاند کی روشنیوں سے چمکتا رہتا ہے دراصل ایک وسیع گنبد نما تعمیر پر دور پہاڑوں سے دکھنے والی ایسی قدیم تعمیر ہے جس کے نیچے صدیوں سے بدھ بھکشو اور بدھا کے عقیدت مند اک طلب، عقیدت، اور سرشاری میں دیواروں پر ترتیب سے لگے دھات کے بنے سنہری خاص انداز کے بنے دھرمی پہیوں کو اپنے ہاتھوں سے گھماتے رہتے ہیں۔ اور آپ دائرے کے کسی بھی حصے میں دیوار کے ساتھ چل رہے ہوں دھاتی پہیے آپ کی دسترس میں رہیں گے۔

تقریباً ڈیڑھ سو میٹر قطر کا دائرہ جس میں کچھ چھوٹی تعمیریں اور وسط میں ایک وسیع سفید گنبد نما عمارت جس پر اک خاص طرز تعمیر والا یہ سنہری مینار جس پر بنی یہ دونوں آنکھیں ہر وقت ہر اک سمت میں دور تک دیکھتی رہتی ہیں، مینار کی بلندی سے دائرے کی بیرونی دیوار تک کھنچی رسیوں میں آویزاں نیلے، پیلے، ہرے، سرمئی اور سرخ کپڑے کے بہت سے جھنڈے، سفید گنبد کے باہر اس پہلی منزل کی اونچائی پر ایک درخت اور باہر دائرے میں بہت سے سیاح، بدھ بھکشو اور بدھ مت کے پیروکار کچھ خاموشی اور کچھ بلند آواز میں بدھ مت کے منترے پڑھتے اس اسٹوپا کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔

دائرے کے باہر جا بجا دھاتی میزوں پر رکھے ہوئے چراغ جن کے جلنے سے ان کے اطراف میں روشنی کے لرزتے سایے نظر اتے ہیں اور اوپر اڑتے ہوئے سفید اور سیاہ پرندوں کی ڈاریں جن کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اک عجب سا سماں پیدا کرتی ہیں۔ اور لوبان اور کچھ اور خشک جڑی بوٹیوں کا جلتے بجھتے کوئلوں پر چھڑکنے سے پیدا ہونے والا خوشبودار دھواں۔

ہم مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے والینٹئرمنسٹرز انٹرنیشنل کے رضاکار پشو پتی ناتھ مندر کمپلیکس کے سامنے ایک ہاسٹل میں رکے ہوئے تھے اور وہاں ہمارے رکنے کا مقصد سال دوہزارپندرہ کے مئی کے مہینے میں آنے والا ریکٹر اسکیل پر چھ اعشاریہ سے زائد کی شدت کے زلزلہ کے بعد ہونے والی امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں میں حصہ لینا تھا۔

ان امدادی سرگرمیوں کے سلسلے میں عموماً کٹھمنڈو سے باہر مختلف گاؤں میں اسکولوں اور گھروں کی تعمیر کے لیے بھی جانا پڑتا تھا اور کٹھمنڈو شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں زلزلہ متاثرین کی امداد کے سلسلے میں روزانہ صبح آٹھ بجے سے رات گئے تک سرگرمیاں جاری رہتی تھیں اور جس دن شام ہمیں کچھ وقت مل جاتا تو سیر کرتے اور کوشش ہوتی کہ شہر کی گلیوں میں پیدل گھوم کر شہر کو دریافت کریں۔

حیات ریجنسی ہوٹل کے قریب ایک ابادی کے باہر واقع میدان میں قائم زلزلہ متاثرین کے کیمپ میں ایک بدھ بھکشو سے ملاقات ہوئی اور پھر کام کے بعد میں اور پرویز اس بدھ بھکشو کے ساتھ تقریباً آدھے گھنٹے پیدل سفر کرکے بدھ مونسٹری کی اک سرخ اور سنہری رنگ والی خوبصورت اور بڑی سی عمارت تک جا پہنچے۔ اک مختلف راستے سے واپسی کے سفر میں کچھ دیر چلتے چلتے ہم بائیں جانب کی ایک گلی میں داخل ہوئے اور پھر دیوار پر بنے اک نقشے پر توجہ گئی مگر تفصیل سے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا اور یکایک ہم اک اور دنیا میں داخل ہوگئے جہاں رستہ سیدھا نہیں تھا بلکہ کچھ موڑ سے تھے ہم بدھا ناتھ اسٹوپا کے دائرے کے ایک حصے کو جیسے چھو کر نکل گئے۔

شام رفتہ رفتہ اتر رہی تھی اور سورج کی روشنی گویا بس جانے کو ہی تھی اور اجنبی شہر کٹھمنڈو کا وہ اسرار بھرا گوشہ جہاں اک منتر کے زور زور سے پڑھنے کی آواز گونج رہی تھی اوم مانی پدمے ہم، اوم مانی پدمے ہم۔ پتہ چلا کہ اوم مانی پدمے ہم بدھ مت کے پانچ بنیادی منترا میں سے ایک ہے جو وہ من کو شانت کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔

اس دن تو جیسے ہم بدھا ناتھ کو چھو کر ہی گزر گئے تھے مگر دل میں ایک کسک سی تھی کہ وہاں پھر جانا ہے اور اک اور شام کو ہمیں موقع ملا اور میں پرویز اور ہمارا افغانی تاجک دوست فہیم بدھا ناتھ کی سیاحت کو روانہ ہوئے اور کچھ دیر بعد ہی ہم اس بڑے سے دروازے سے بدھا ناتھ اسٹوپا کی اسرار بھری دنیا میں داخل ہوئے۔ ہمارے سامنے گیروے رنگ کے لبادوں میں ملبوس بدھ بھکشو، بدھ مت کے ماننے والے اور ان کے ہمراہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مختلف رنگ ونسل کے سیاح ایک ساتھ چلتے جا رہے تھے اور ہم بھی اس ہجوم میں شامل ہوئے کہ دریافت کرسکیں کہ ماجرا کیا ہے۔ نہ دکھائی دینے والے اسپیکرز سے بدھ منترا اوم مانی پدمے ہم کی بلند گونجتی ہوئی آواز اک ردھم کے ساتھ ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔

بدھا ناتھ اسٹوپا کا سفید گنبد، اس پر بڑا سنہری مینار، نیچے گول احاطے میں دیگرچھوٹے بدھ مندر اور زیارت گاہیں اور ان کے باہر ایک سو پچاس میٹر کے قطر کا دائرہ جس میں بھکشو، بدھ مت کے ماننے والے اور سیاح چلتے جا رہے تھے اور اس بڑے انسانی دائرے کے باہر بنی بہت سی عمارتیں جن میں رہائشی ہوٹل، کافی ہاؤسز، ریسٹورنٹ، مذہبی رسومات کی ادائیگی کے سامان اور یادگاری اشیا سے اوپر تک بھر ی دکانیں، ان کے اگے جابجا جلتے ہوئے چراغوں کے سلسلے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھا بدھاناتھ اسٹوپا کے اس اسرار بھرے جہان میں۔ جہاں نہ جانے دریافت کرنے کے لیے کیا کچھ تھا۔

اس شام ہم گول دائرے میں ہجوم کے ساتھ چلتے رہے اور پھر اطراف کی دکانوں میں اجنبی سی مورتیوں اور شاندار دستکاریوں کو دیکھتے رہے، جلتے چراغوں کے ہجوم کے پاس کھڑے ہوکر، بیٹھ کر یادوں کو کیمرے میں محفوظ کرتے گئے۔ رفتہ رفتہ شام گہری ہوتی جارہی تھی مگر دائرے کی رونق بڑھتی جارہی تھی اور بڑے سے سفید گنبد پر بنے سنہری مینار کے ہر اک رخ پر بنی وہ دو آنکھیں دور تلک دیکھ رہی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).