یہ خطہ بانجھ ہو گیا


انقلاب کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ سابقہ نظام اور نظریے کی جگہ نیا نظام و نظریہ لے لیتا ہے اور اس کے بعد نئے نظام کی ترویج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آغاز انقلاب سے لے کرنئے نظام کے قائم ہونے اور نئے نظام کے قیام کے بعد بھی تمام مراحل میں ایک منظم اور واضح آئیڈیالوجی کارفرما ہونا لازمی ہے ورنہ کسی بھی لمحے یہ پورا نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ مثلاً اگر عوام آئیڈیالوجی کی بجائے شخصیات کی پیروی میں آگے بڑھیں توشخصیات کے منحرف ہوتے ہی نظا م بھی انحراف کا شکار ہو جائے گا۔ لہذا تمام مراحل میں فقط آئیڈیالوجی کو ہی محرک و محور قرار دینا چاہیے۔ آئیڈیالوجی میں بھی اتنی صلاحیت و طاقت ہونی چاہیے کہ نوزائیدہ انقلاب کی حفاظت کر سکے، عوام کو اس انقلاب سے وفادار رکھ سکے، انقلاب کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے بچا سکے۔

انقلاب فرانس کا شمار بھی ان انقلابات میں ہوتا ہے جو بعد از انقلاب ہرج و مرج اور افراتفریح کی صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکے اورنوزائیدہ انقلاب زیادہ مدت تک زندہ نہ رہ سکا۔ انقلاب فرانس کا محرک کوئی مستحکم آئیڈیالوجی نہیں تھی بلکہ چند مادی فوائد مہیا کرنے کے چند وعدے تھے جس کی بنیاد پر عوام کو حکومت کے خلاف کھڑاکیا گیا۔ وہ عوام جن کو مادی فوائدکی فراوانی کا شعار دے کر میدان میں لایا گیا تھا وہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اسی خوشحالی اور رفاہ کے خواہاں تھے۔ معنویت سے خالی اس خالص مادی نظریے میں اتنی طاقت ہو بھی نہیں سکتی تھی کہ کٹھن عبوری دور میں عوام کو انقلاب سے وفادار رکھ سکے۔ نتیجتاً شورشوں پہ شورشیں بڑھتی گئیں اور ہر چھ ماہ بعد ایک نیا انقلاب نئی حکومتی پالیسی کے ساتھ بر سر اقتدار آجاتا۔

تاریخی اعتبار سے فرانس میں ایک طویل مدت تک بادشاہت کا نظام حاکم رہا، انقلابی تحریک اٹھی اور مطلق العنان بادشاہت کو دستوری بادشاہت میں تبدیل کر کے رک گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جمہوریت پسندی کو فروغ ملنے لگا اور جمہوریت پسند عوام نے دستوری بادشاہت کا بھی خاتمہ کر کے جمہوری انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ انقلاب بھی زیادہ عرصہ عوام کو نہ بھایا اور حکومت ایک انتظامی کونسل کے حوالے ہوگئی، انتظامی کونسل کو ہٹا کر نپولین برسراقتدارلیکن وہ بھی اپنی حاکمیت نہ بچا سکا اور فرانس اتنے سیاسی نشیب و فراز دیکھنے کے بعد دوبارہ بادشاہت پر آپہنچا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں ایک بار پھر اس بادشاہت کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں اور یہ داستان انقلاب دوہرائی گئی۔ اس سارے عرصے میں کبھی بھی کوئی انقلاب کسی پختہ اور منظم آیئڈیالوجی کی بنیاد پر رونما نہیں ہوا بلکہ حالات سے تنگ عوام کو رفاہ کا جھانسہ سے کر موجودہ حکومتوں کے خلاف میدان میں اتارا جاتا رہا۔

اٹھارہویں صدی بے نظمی اور انتشار کی صدی تھی، موجودہ حکومتوں کی نسبت عوام کے اندر عدم اطمینان موجود تھا لیکن واضح اور شفاف آیئڈیالوجی نہ ہونے کی وجہ سے اس عدم اطمینان کو کوئی جہت نہیں دے سکے، لوگ آزادی چاہتے تھے لیکن آزادی کے مقاصد سے انجا ن تھے، آزادی کا نعرہ لگاتے تھے لیکن آزادی کی حدود کا کوئی علم نہیں تھا۔

انقلاب کا آغاز حالات سے نہیں بلکہ ایک فکری مرحلے سے ہوتا ہے جس میں موجودہ نظام کا مفصل جائزہ لیا جاتا ہے اور نئے نظام کے لیے آیئڈیالوجی تدوین کی جاتی ہے اور اس سارے کام کے لیے انقلاب کو فکری رہنما درکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد تحریکی و نہضتی رہبری کی ضرورت ہوتی ہے جو اس آیئڈیالوجی کو انقلاب تک پہنچائے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد سیاسی و حکومتی رہبر آیئڈیالوجی کا نفاذ کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے اندر ان تینوں مراحل کی رہبری کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی اس لیے یہ تینوں مراحل آپﷺ کی اپنی رہنمائی میں تکمیل ہوئے اور اسلامی آیئڈیالوجی کی حکومت قائم ہوئی۔ حکومت قائم ہونے کے بعد اس آیئڈیالوجی کی تبلیغ و ترویج کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ تمام کامیابیاں آیئڈیالوجی کی رہین منت ہوتی ہیں لہذا جیسی آیئڈیالوجی ہوگی ویسا ہی انقلاب برپا ہوگا اور ویسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔

تحریک آزادی پاکستان میں فکری، تحریکی اورحکومتی قیادت مختلف افراد کے پاس رہی ہے، علامہ اقبال نے جس تفکر اور آیئڈیالوجی کو پیش کیا تھا وہ تحریکی مرحلے میں ہو بہو نافذ نہیں ہو سکی اور تیسرے مرحلے میں رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک ہی فرد کے اندر تینوں مراحل کی صلاحیت موجود ہو تو انقلاب کے منحرف ہونے کے امکانات بہت حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ اگر تینوں مراحل میں مختلف افراد بھی قیادت کریں، تو کم از کم ان سب کا ایک ہی آیئڈیالوجی سے سو فیصد ہم آہنگ ہونا لازمی ہے۔

ہمارے ملک میں آیئڈیالوجی کی بجائے تنظیمی و حزبی دستورات کے محور میں مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جہاں تنظیمی و حزبی دستور سے ہٹ کر سوچنا جرم سمجھا جاتا ہے، ۔ حالات کے رحم و کرم پر کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی کا حصہ بن کر انقلاب کی امید لگانا بے وقوفی ہے۔ انقلاب اپنے قوانین اور ضابطوں کے ساتھ رونما ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پاکستان کے نصیب میں فکر اقبال کو عملی کرنے والا کوئی انسان پیدا ہو جاتا لیکن شورش کاشمیری نے شاید ٹھیک کہا تھا کہ ”یہ خطہ بانجھ پن کا شکار ہوگیا ہے“ ۔ بانجھ سرزمینوں سے ملازمین تو پیدا ہو سکتے ہیں رہنما نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).