دائروں میں بٹی قوم اور جمہوریت پر مفاد پسندی کا سایہ


گزشتہ چند روز میں پاکستانی میڈیا کی چند سرخیاں قابل غور ہیں:

’بل گیٹس نے سی این این کے انٹرویو میں کورونا کے خلاف پاکستانی اقدامات کی توصیف کی۔ بعد ازاں وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اپنے اپنے طور پر پولیو مہم کے سلسلہ میں بل گیٹس سے ٹیلی فون پر بات کی‘۔

’جنرل اسمبلی کے منتخب ترک نژاد صدر نے دورہ پاکستان کے دوران کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا‘۔

’شجر کاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومت نے کورونا وبا پر قابو پالیا‘۔

’چیف جسٹس نے کراچی میں بل بورڈز کے معاملہ پر ایک سوموٹو مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا کہ کراچی کا کوئی والی وارث نہیں۔ سب آتے ہیں مال بنا کر چلے جاتے ہیں‘۔

’وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اختلافات ختم کرلئے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر آرمی و آئی ایس آئی چیفس کے دورہ سعودی عرب میں پوری ہوجائے گی۔ دونوں ملک اچھے بھائیوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھیں گے‘۔

چین کے بعد پاکستان کے یار غار ترکی نے متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدام کو ’منافقت‘ قرار دیا ہے اور صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کو سزا دینے کےلئے اس سے سفارتی تعلقات معطل کرسکتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے البتہ یہ نوٹ کیا ہے کہ اس فیصلہ کے علاقائی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔۔۔۔یہ چند خبریں بطور نمونہ یہاں درج کی گئی ہیں ورنہ یہ فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی خبر کی تفصیل پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ شہ سرخی چیخ چیخ کر متن کے بارے میں ساری تفصیل بتارہی ہوتی ہے۔ اسے پاکستانی میڈیا ہاؤسز کے نیوز رومز میں بیٹھے نیوز ایڈیٹرز کی مہارت بھی کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی و ریاستی کے علاوہ عدالتی و عسکری امور کو سنجیدہ معاملہ سمجھنے کی بجائے مذاق بنا لیا گیا ہے۔ خبروں میں بھی اس کی وہی حیثیت نمایاں ہوتی ہے۔ ان خبروں سے اخبار نویس کی ذہانت یا چابکدستی سے زیادہ ہمارے لیڈروں کی کم مائیگی اور غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے جس کی بدولت ملک میں فکری انتشار کی سنسنی خیز صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔

اس صورت حال کی بنیادی وجہ بظاہر یہ ہے ملکی معاملات دیکھنے اور ان کی نگرانی کرنے کا اختیار بذریعہ پارلیمنٹ حکومت کو تفویض کیا گیا ہے لیکن ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے شوق اور دوڑ میں سیاست دان یہ حق و اختیار بصد شوق عسکری اداروں کے پاس گروی رکھ کے خود حکومتی اختیار کے ذریعے اپوزیشن سے حساب برابر کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ تاکہ وہ درپردہ کسی ’ڈیل‘ کا حصہ بن کر ان کی جگہ نہ لے لیں۔ اور نیب سمیت دیگر اداروں کو اپنی توپوں کا رخ تازہ بہ تازہ سابقہ ہونے والے حکمرانوں کی طرف نہ موڑنا پڑے۔ اس ملک کے سب حکمرانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اقتدار میں ہوتے ہوئے کبھی اس شبہ کا شکار نہیں ہوتے کہ انہیں بھی اقتدار و اختیار سے محروم ہونا پڑے گا اور کبھی وہ بھی اسی مقام پر موجود ہوں گے جہاں اس وقت وہ مخالفین کو دھکیلنے میں مصروف ہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تین دہائیوں سے جاری چپقلش اس افسوسناک حقیقت کی زندہ مثال ہے کہ اقتدار کے دوران ملے ہوئے اختیار کو جب سیاسی سوجھ بوجھ کی بجائے ذاتی حساب برابر کرنے پر صرف کیا جائے تو کوئی ’میثاق جمہوریت‘ بھی شک اور بے اعتمادی کی دراڑوں کو پر نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری عید الاضحیٰ سے پہلے پرزور طریقے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ملک کے لئے خطرہ قرار دینے کے بعد ابھی تک آل پارٹیز کانفرنس بلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ کبھی محرم کا انتظار ہوتا ہے اور کبھی عید میلادالنبی ﷺ گزر جانے کی بات کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیاں تو ایک طرف خود مسلم لیگی لیڈر بھی ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ مسلم لیگ (ن) میں پڑنے والی پھوٹ میں سے شہباز شریف اپنی وزارت عظمی کا راستہ کھوجنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ عوام کے حق حکمرانی کو محفوظ رکھنے کی بحث کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا جائے۔ ان کی جمہوریت اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش پر ختم ہو جاتی ہے۔

 اس وقت ملک میں بے چینی کا سبب دو بنیادی عوامل کو قرار دیا جاسکتا ہے:

اوّل : کوئی ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہنے پر تیار نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام کرنا چاہتا ہے جس کا ملکی آئین اسے حق و اختیار نہیں دیتا۔ یہ رویہ اب سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت تک محدود نہیں رہا بلکہ نیب سے ہوتے ہوئے عدالتوں اور ججوں تک پہنچ چکا ہے۔ کراچی میں سول سہولتوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران سندھ حکومت پر چیف جسٹس کے الزامات اور صوبے کی انتظامی صورت حال پر تبصرے اس کی تازہ مثال ہیں۔ معاملہ عدالتی فعالیت (جوڈیشل ایکٹو ازم) سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ عدالتی فعالیت میں جج حضرات عوامی بہبود کے معاملات پر بعض اوقات قانونی حدود و روایات سے تجاوز کرکے سخت اور مختلف فیصلہ کرنے لگتے ہیں لیکن پاکستان کی موجودہ صورت حال میں یوں لگنے لگا ہے کہ عدالتی رویہ انفرادی حقوق کے تحفظ کی بجائے مملکت کے سیاسی انتظام میں حصہ داری تک پہنچ چکا ہے۔ یہ رویہ قابل فہم بھی ہونا چاہئے۔ جب عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والی حکومتیں کمزور اور بے اختیار ہو جائیں اور غیر منتخب ادارے پالیسی سازی کرنے لگیں تو عدالتیں اس بندر بانٹ میں اپنا حصہ کیوں نہ مانگیں؟

کون اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ ملک میں جمہوریت کے تازہ ترین دور میں جو پرویز مشرف کی آمریت کے بعد شروع ہؤا ہے، برسر اقتدار آنے والے سب لیڈروں کو عسکری اداروں سے مفاہمت کے ساتھ چلنا پڑا۔ یا انہیں اس حد تک عاجز کیا گیا کہ وہ معافی مانگنے اور معاملات کو ’درست ‘ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ بھی پاکستانی جمہوری مزاج کا المیہ ہے کہ اقتدار سے چمٹا ہؤا کوئی لیڈر پارلیمنٹ کو اپنا آخری مورچہ نہیں سمجھتا بلکہ جی ایچ کیو کے ساتھ مواصلت کو نجات کا واحد راستہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ملک میں گزشتہ بارہ برس کے دوران سیاسی چہرے اور پارٹیاں تو بدلتی رہی ہیں لیکن اختیار ایک ہی جگہ ٹھہرا ہؤا ہے۔ یعنی بے اختیار سیاست دان مدت پوری ہونے کے بعد ناکامیوں کا الزم سر پر اٹھائے گھر چلے جاتے ہیں لیکن جو عناصر اور ادارے ’حکمران ‘ ہیں ان سے جوابدہی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

دوئم: ریاستی معاملات پر مکمل دسترس رکھنے والے عناصر نے موجودہ سیاسی انتظام کی صورت میں معاملات پر بلا روک ٹوک کنٹرول برقرار رکھنے کا جو حل تلاش کیا، اسے تحریک انصاف کی صورت میں ملک پر مسلط کیا گیا ہے۔ ’نئی پارٹی‘ اور عمران خان کی ’بے داغ‘ قیادت کے ذریعے ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ ملک میں وسیع عوامی تائید رکھنے والی دونوں بڑی پارٹیوں کو دفاعی پوزیشن پر رکھتے ہوئے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کھینچا تانی میں حالات کو اس حد تک سنگین بنا دیا جائے کہ وہ معافی تلافی کے ذریعے سیاست سے تائب ہو جائیں یا کسی ’پانامہ‘ کے ذریعے انہیں نااہل قرار دینے کا اہتمام کیا جائے۔ اختیارات کے ارتکاز اور ’قومی مفادات‘ کے تحفظ کا یہ طریقہ بظاہر کامیابی سے کام کر رہا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گھٹن میں سیاسی رائے ہی نہیں بلکہ سماجی ماحول بھی انتہا پسند دائروں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ یعنی ایسی متوازن رائے، سوچ اورمعتدل رویہ کا خاتمہ ہؤا ہے جس میں معاملات کو میرٹ اور حقائق کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ اب کسی اصول کی بنیاد پر کسی لیڈر یا پارٹی کا ساتھ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی بنیاد ہیرو پرستی قرار پائی ہے۔ اسی لئے ملک میں اختلافی رائے کی گنجائش ختم ہورہی ہے۔ کسی بھی مخالفانہ، متوازن یا غیر جانبدارانہ رائے کو دشمنی پر محمول کرنا افراد، اداروں اور سیاسی پارٹیوں و لیڈروں کا وتیرہ بن چکا ہے۔

یہ طریقہ دراصل تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ جب پوری قوم کو اس طرح رائے کی بنیاد پر تقسیم کر کے دوست یا دشمن کے خانوں میں بانٹا جائے گا تو اس کے نتیجے میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی البتہ اختیار و طاقت حاصل کرنے کی دوڑ میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے دانشور بھی اس انتہا پسندانہ تقسیم کے خلاف رائے ہموار کرنے یا اس کے بھیانک نتائج سے آگاہ کرنے کی بجائے بڑی حد تک خود اس عمل کا حصہ بن چکےہیں۔ یہ تقسیم جب مذہبی دائروں میں داخل ہوتی ہے تو انتہا پسندی کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں ’تحفظ اسلام‘ نامی بل کی منظوری اور بعد میں اسے ’تعطل‘ کا شکار کرنے کے عمل میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

سیاسی ماحول کے علاوہ عدالتی اور قومی اداروں کی سطح پر خود پسندی اور اپنے افضل ہونے کا مزاج بھی اسی انتہا پسندی اور آئینی طریقوں سے فرار کا نتیجہ ہے۔ خرابی کا آغاز اپنے مقررہ دائرہ کار کو چھوڑ کر دوسرے کے کام کو بہتر طور سے کرنے کے دعوے سے ہوتا ہے۔ اس کا تدارک اس طریقہ کو بدلنے سے ہی ہوگا۔ ملک میں میڈیا پر پابندی، عدالتی فعالیت، قومی مفاد کے نام پر ناقابل فہم نعروں کی گونج میں ایسی کسی کوشش کا آغاز مشکل دکھائی دے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali