شہرِ پُرکمال کی باکمال شخصیات: کرشن چندر، بیدی اور کنھیا لال کپور
عموما لوگ شہروں میں بستے ہیں لیکن بعض شہر لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ لاہور ایک ایسا شہر ہے جو لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ لاہور آنے سے پہلے ہم لاہور کو تین حوالوں سے جانتے تھے:۔
1.وہ پیدا ہی نہیں ہوا جس نے لاہور نہیں دیکھا۔
2.غلام عباس کے افسانے اوور کوٹ کے حوالے سے.
3.گاؤں کے ایک بزرگ کے جملے سے “بالاں کوں لہور پڑھائی کنڑ بھیج کے ولاونڑ ایویں اوکھے جیویں سور کماند اچوں کڈھنڑاں اوکھے”
(بچوں کو پڑھنے کے لئے لاہور بھیج کر واپس بلانا سور کو کماد کے کھیت سے نکالنے جتنا مشکل ہے)
*درج بالا حوالوں میں سے پہلے حوالے کی مناسبت سے ہم نے 2012 میں پہلی بار لاہور دیکھا یعنی ہم بھی پیدا ہو گئے اور یوں 2020 میں آٹھ سال کے ہوئے۔
*غلام عباس کے افسانے میں ہم نے جس لاہور کو دیکھا اس میں مال روڈ کے اردگرد لہلہاتے کھیت تھے ان لہلہاتے کھیتوں کے درمیان کہیں کہیں خالی جگہوں پر کھیل کے میدان اور ان میدانوں میں کھیلنے والے بچے اور بچے بھی ایسے معصوم کہ کسی کے ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے سے شرما جانے والے، لوگ مال روڈ کے ساتھ ساتھ سیر کو جاتے، گاڑی تو گھنٹوں میں کبھی کبھار ہی کوئی گزرتی! مگر ہم نے اوورکوٹ پڑھ کر اپنے تخیّل میں لاہور کا جو نقشہ بنایا ہوا تھا لاہور آکر وہ لاہور کہیں نہ ملا۔ ہاں ایک بے بس مال روڈ ملا جسے دن رات لتاڑتی ہوئی گاڑیوں نے یوں چھپایا ہوا ہے کہ اب تو کم کم نظر آتا ہے۔
*بزرگ والی بات کو اس لئے ہم آنکھیں بند کرکے تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم پڑھنے لکھنے کی غرض سے لاہور آئے، پڑھ لکھ کر لیکچرارہوئے مگر لاہور سے واپس نہ جا سکے بلکہ درمیان میں ایک سال کے لئے اسلام آباد کیا گئے کہ دوستوں سے اکثرکہتے:۔
“ہمارا جسم چاہے اسلام آباد کے پرہول ویرانوں میں ہو مگر ہمارا دل انارکلی اور اردو بازار کے درمیان لہو رنگی عمارت میں کہیں رہ گیا ہے”
لاہور پرکشش اور پرتاثیر شہر ہے۔ محبانِ لاہورنے اس کے بارے میں نظم و نثر دونوں میں اپنے اپنے انداز سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ عزیزِمن شاہد بلال کا ایک شعر دیکھیں:
طلسمِ ہوش رُبا جیسا شہر ہے لاہور
جو اس دیار میں آئے وہ لاپتہ ہو جائے
لاہورکی جادو گری کے کئی حوالے ہیں جن میں لاہور کی عمارتیں، باغات، مساجد، لائبریریاں، چائے خانے، کالج اور جامعات کی فضا جو علمی و ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا رومانوی پہلو بھی رکھتی ہے۔
لاہور کی علمی و ادبی فضا میں فیض پا کر بہت سوں نے دنیائے ادب پر راج کیا۔ مجدد الف ثانی نے قلیچ خاں کو ایک خط میں لکھا :۔
“لاہور ہندوستان کے تمام شہروں کا قطب الارشاد ہے اور اس کی خیروبرکت ہندوستان کے تمام شہروں پر اثر ڈالتی ہے جو شے یہاں رواج پائے گی ہندوستان کے تمام شہروں میں اسی کا چرچا ہوگا۔”
دراصل اتنی لمبی تمہید کا مقصد بھی ایک ایسی اہم کتاب کا تعارف مقصود ہے جس میں شہر پرکمال کی تین باکمال شخصیات (کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور) کے دل آویز تاثرات کو محفوظ کیا گیا۔ یہ کتاب “لاہور: شہرِ پرکمال” کے نام سے 2020 کے اوائل میں’قوسین’ نے لاہور سے شایع کی جس کے مصنف محمودالحسن ہیں۔
محمود الحسن نے اس کتاب میں جن تین شخصیات کے تاثرات محفوظ کیے وہ تینوں محبانِ لاہور تقسیم کے بعد دلربا شہر سے جدا ہو کر ہندوستان جا بسے۔ تینوں نابغہِ روزگار ادیبوں کی تخلیقی سرگرمیوں کا آغاز لاہور میں ہوا جہاں انھیں بے پناہ محبت اور پزیرائی ملی۔ ایسے دلربا شہر سے جا کر وہ ہمیشہ لاہور کو یاد کرتے رہے اور تڑپتے رہے۔ ان کی اولین تحریریں لاہور کے رسالوں میں شایع ہوئیں جن سے انہیں پذیرائی ملی۔ “لاہور سے بہرام گلہ تک” کےعنوان سے کرشن چندر کا ایک مضمون جب ‘ہمایوں’ میں شایع ہوا تو کنھیا لال کپور پڑھ کر بہت متاثر ہوئے اور کرشن چندر کو ڈھونڈنےلگے اور یوں کرشن چندر اور کنھیا لال کپور پہلی بار ایک دوسرے سے متعارف ہوئے۔ محمد خالد اختر نے کرشن چندر کی پزیرائی کے حوالے سے لکھا:۔
“جب اس کی کوئی نئی کہانی ‘ادب لطیف’ یا ‘سویرا’ میں چھپتی تو یہ ایک اہم خبر ہوتی اور ہم بے تاب ہو کر لوہاری کے بک اسٹال پر رسالہ لینے کے لیے بھاگتے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔”
تینوں ادیبوں کی اولین کتابیں لاہور سے شایع ہوئیں۔ کرشن چندر کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘طلسم خیال’ 1939 میں مکتبہ اردو لاہور سے شایع ہوا، دوسرا افسانوی مجموعہ ‘نظارے’، اور مضامین کا پہلا مجموعہ ‘ہوائی قلعے’ بھی لاہور سے شایع ہوا۔ راجندر سنگھ بیدی کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘دانہ و دام’ کے نام سے مکتبہ اردو لاہور نے 1939 میں شایع کیا اور دوسرا مجموعہ ‘گرہن’ کے نام سے نیا ادارہ لاہور نے 1942میں شایع کیا۔ کنھیا لال کپور کے پہلے دو مجموعے ‘سنگ و خِشت’ 1942 اور ‘شیشہ و تیشہ’ 1944 میں مکتبہ جدید لاہور نے شایع کیے۔
کرشن چندر کافرادا شہر کے بارے میں سوچتے تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں، وہ مرنے سے پہلے ایک بار لاہور دیکھنے کے خواہش مند تھے، انھیں لاہور سے جنون عشق تھا۔ حمید اختر کو لکھے گئے ایک خط کے اقتباس میں ان کے دل میں ٹھاٹھیں مارتے طوفان محبت کا شور سنیے:
“لاہور میری کمزوری ہی نہیں، میں نے لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے، کسی کونے میں، کسی کوچے میں، کسی چھوٹے سے گندے غلیظ چوک کے کنارے پر۔”
کرشن چندر ایف سی کالج کے میگزین “فولیو” سے آغاز کرکے ‘ادب لطیف’،’سویرا’ تک لاہور کے اہم ترین رسالوں میں شایع ہوتے رہے ۔
اس کتاب میں دوسری اہم شخصیت راجندر سنگھ بیدی ہیں جنھوں نے کہا کہ عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اورجگہ نہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی پرورش خالص ادبی ماحول میں ہوئی ،کم عمری میں بیمار ماں کے پاس بیٹھ کر اتنا کچھ سن لیا تھا کہ شعور پانے تک افسانے کی ایک شکل ان کے ذہن میں بیٹھ گئی اور پھر چچا کے پرنٹنگ پریس خریدنے پر انھیں مطالعے کا موقع ملا اور انھیں ایسا جنون چڑھا کہ انھوں نے ساری کتابیں چاٹ لیں چنانچہ انیس بیس سال کے عمر میں جب انھوں نے لکھنا شروع کیا تو انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ کتاب میں بیدی کی زندگی میں لاہور سے منسوب تمام گوشوں کے حوالے ملتے ہیں، انھوں نے سنگم پبلشر کے نام سے ایک ادارہ بھی قایم کیا جو تقسیم کی نذر ہو گیا۔ بیدی کے مسلمانوں کے ساتھ طرز عمل کے نقوش بھی ملتے ہیں۔
کنھیا لال کپور لاہور کو یاد کرتے ہوئے ناسخ کا شعر دہراتے ہیں:۔
وہ نہیں بھولتا ، جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں؟
مجتبیٰ حسین کنھیا لال کپور کی لاہور سے محبت و عقیدت کو یوں بیان کرتے ہیں:۔
“دروغ برگردنِ راوی، لاہورسے محبت کا یہ عالم ہے کہ رات کو بھی کبھی لاہور کی طرف پیر کر کے نہیں سوتے ۔”
تینوں شخصیات کے مضامین میں دوسری بھی اہم شخصیات کا ذکر ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کی ادبی کہکشاں کیا تھی اور کیسے کیسے روشن دماغ ایک وقت میں اکٹھے رہتے اور محفلیں جماتے۔
محمود الحسن کی کتاب ایک محبت نامہ تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ تاریخی اور سوانحی دستاویز ہے جس میں انھوں نے تینوں مذکورہ شخصیات کے متعلق اہم حوالے محفوظ کر دیے انھوں نے سخت محنت اور عرق ریزی سے حوالے ایک کتاب میں جمع کر کے ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے آسانی پیدا کردی ورنہ ان حوالوں کی خاطر درجنوں کتابوں کی ورق گردانی کرنا پڑتی اور کئی لائبریریوں اور اداروں کی خاک چھاننا پڑتی۔ لاہور: شہر پرکمال پڑھنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ محمود الحسن نے مذکورہ تینوں ادیبوں کی تمام کتابوں کے ساتھ ساتھ ان سے متعلقہ کتابوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).