باجے بجا کر آزادی منانے پر اعتراض کیوں؟


ہمار ے معاشرے میں فروعی معاملات لوازم سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل کر جاتے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں یا کوئی اور پلیٹ فارم، وہی موضوعات زیر بحث رہتے ہیں جن کا عوام کے حقیقی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مسجد میں ہونے والے شوٹ پر یار لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن کیا مساجد اور مدارس میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعات پر بھی اسی طرح کا رد عمل دیکھنے کو آتا ہے۔ یوم آزادی ایک تہوار کی حیثیت رکھتا ہے مگر آپ نے خوشی منانے کے لیے بھی حدود و قیود قائم کردیے ہیں۔

رقص و موسیقی نرا گناہ ہے جبکہ سڑکوں پر باجے بجاتے ہوئے بچے ملکی مسائل سے نظریں چرا کر وطن عزیز کے وقار کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ اگر یہ آزادی کا دن ہے تو لوگوں کے پاس اسے آزادی سے منانے کا حق بھی ہونا چاہیے۔ ایسے میں جھوٹے وقار اور اخلاقیات کا راگ الاپنے والے پہلے تویہ سمجھیں کہ باجے نہ بجانے سے ہم نے ایسا کیا حاصل کر لیا ہے جو ایک دن میں گنوا دیا جائے گا۔ ایک دن باجے بجنے سے وطن عالیشان کے وقار اور ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے والی۔

سارا سال سڑکوں پر باجے نہیں بجتے مگر ہاں بارڈر پر روز توتیاں ضرور بجائی جاتی ہیں۔ پھر آپ جسے اخلاقیات کہتے ہیں اس کا ماخذ کیا ہے؟ ہر شخص کے نزدیک اخلاقیات کا ایک الگ تصور ہو سکتا ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے لیے یہ طے نہیں کر سکتا کہ اسے اپنے افعال و کردار فلاں ضابطے کے مطابق ڈھالنے چاہئیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اگر ہمارا ہینڈسم اپنے پالتو کتے کے ساتھ فوٹو بنائے یا کوئی مزاحیہ بات کرے تو کتنے منہ کھل جاتے ہیں تحقیر کرنے کو مگر کچھ کے نزدیک یہ سب کیوٹ، کول یا گڈ سینس آف ہیومر کے کھاتے میں آ جاتا ہے۔

آخر یہ نام نہاد اخلاقیات ہیں کیا؟ اس کا جواب کسی مذہبی یوٹوپیا میں ڈھونڈنے کی بجائے سنجیدگی سے معاشرتی حالات کو نظر میں رکھ کر سوچنا پڑے گا۔ مقامی تہواروں (بسنت، لوہڑی) وغیرہ کو آپ ہندوانہ قرار دے کر پہلے ہی ختم کر چکے ہیں۔ میلے ٹھیلے جو کلچر کا حصہ تھے وہ بھی اسی زمرے میں آگئے یا جہالت کا ٹیگ لگوا چکے ہیں۔ ہم ایسے لوگ جن کا طبعی میلان ہی اداسی کی طرف ہے کے لیے وجوہات کبھی کم نہیں ہوتیں مگر جو خوشی کے متلاشی ہیں اور مجبوراً پریشانیوں میں گھرے ہیں ان کے لیے یہ موقع تفریح طبع کا پیغام لا رہا ہے تو انہیں لطف اٹھانے دیں۔

ہر شخص انفرادی طور پر آزاد ہے مگر ایک شخص کی آزادی براہ راست دوسرے کی آزادی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انفرادی آزادیوں کے اس باہم تعلق کو کم سے کم تو کیا جا سکتا ہے مگر مکمل طور پرختم نہیں۔ خوشی یا اداسی، دونوں آپشن موجود ہیں جن کا انتخاب ہر شخص اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ ایک نوجوان کے قتل کی خبر مجھے اداس کرنے کے لئے کافی تھی مگر شاید میرے بیشتر ہم وطنوں کو اس کی خبر نہیں ہوئی یا انہوں نے یہ دن خوشی سے منانے کو ترجیح دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).