اسرائیل فلسطین تنازع: مذاہب کی روشنی میں


دنیا بھر میں اس وقت جتنے ممالک کے درمیان تنازعات ہیں ان میں فلسطین کا تنازعہ سب سے قدیم اور حساس ہے۔ یہ مسئلہ بنیادی طور پر دو قوموں کے مابین نہیں بلکہ دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مذہبی تنازعہ ہے۔ اگر اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو سرزمین فلسطین تین الہامی مذاہب جس میں یہودیت، عیسائیت اور مسلمان شامل ہیں اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے یہ سرزمین مقدس اور معتبر تسلیم شدہ ہے۔ تا ہم اس تنازعہ کے مرکزی کردار مسلمان اور یہودی ہیں اور کئی صدیوں سے یہ تنازعہ ان کے مابین حل نہیں ہورہا اور شاید اس کے حل ہونے کے امکانات بھی نا ہونے کے برابر ہیں۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی مذہبی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے تو مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین اختلاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ یہودیوں کے الہامی کتاب تورات کے مطابق ”کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اہل و عیال سمیت اور سے نکل کر کنعان کی طرف، جو فلسطین کا قدیم تاریخی نام ہے، ہجرت کرنے کا حکم دیا تو ان سے وعدہ کیا کہ وہ یہ سرزمین ان کی اولاد کو عطا کرے گا۔ ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ تو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اس ملک میں جا جو میں تجھے دکھاؤں گا۔

اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور بابرکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ اور وہ ملک کنعان کو روانہ ہوئے اور ملک کنعان میں آئے۔ اور ابرام اس ملک میں سے گزرتا ہوا مقام سکم میں مورہ کے بلوط تک پہنچا۔ اس وقت ملک میں کنعانی رہتے تھے۔ تب خداوند نے ابرام کو دکھائی دے کر کہا کہ یہی ملک میں تیری نسل کو دوں گا۔“ (پیدائش 12: 1۔ 7)

تورات ہی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موعودہ سرزمین کے حدود اربعہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتا دینے کے ساتھ ساتھ اس کے حصول کی الٰہی اسکیم بھی ان پر واضح فرما دی تھی۔ یہودی تورات کے ان بیانات کی روشنی میں دعویٰ کرتے ہیں کہ سرزمین فلسطین ان کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہے اس لیے یہاں پر حکومت ان کا ازلی اور دائمی حق ہے۔

اب جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو قرآن پاک ان تمام بیانات کی تصدیق کرتا ہے اور اس کی آیات سے حسب زیل امور بالکل واضح ہیں جیسا کہ سورہ الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ سرزمین فلسطین بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وراثت کے طور پر عطا کی گئی تھی اور اس میں ان کا آباد ہونا اللہ کے خاص فضل و احسان کا نتیجہ تھا۔ سورہ یونس میں فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور سمجھے جاتے تھے، اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا وراثت بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔

اور تیرے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر و استقامت کی وجہ سے پورا ہو گیا۔ اورہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا۔ اس سرزمین پر قبضے کے لیے بنی اسرائیل کی جنگیں ’قتال فی سبیل اللہ تھیں اور اس سے روگردانی ان کی بزدلی اور حکم عدولی کا مظہر تھی۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دور میں بنی اسرائیل کو اس حوالے سے جہاد کی جو ترغیب دی، اس کا ذکر قرآن مجیدکی سورہ المائدہ میں ان الفاظ میں آیا ہے کہ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم، اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔ اے میری قوم، اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمھارے نام لکھ دی ہے اور پشت پھیر کر روگردانی نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ پھر نقصان میں جا پڑو۔

جب بنی اسرائیل نے دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیا تو اس بزدلی کی پاداش میں اس سرزمین میں ان کا داخلہ چالیس سال کے لیے موخر کر دیا گیا۔ اللہ نے فرمایا کہ اب یہ سرزمین چالیس سال کے لیے ان پر حرام کر دی گئی ہے۔ یہ زمین میں سرگرداں ادھر ادھر پھرتے رہیں گے، اس لیے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا۔

بنی اسرائیل پر اللہ کے احکام سے روگردانی کی صورت میں تعذیب اور طنی کا، جبکہ اصلاح احوال کی صورت میں اللہ کی رحمت کے دوبارہ متوجہ ہونے کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ قرآن پاک کی سورہ الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور جب تمھارے رب نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ بنی اسرائیل پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب چکھائیں گے۔ بلاشک تیرا رب جلدی سزا دینے والا ہے اور بے شبہ وہ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے۔

اور ہم نے ان کو دنیا میں تتربتر کر دیا۔ ان میں کچھ نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو خوش حالی اور بدحالی سے آزماتے رہے تاکہ وہ باز آ جائیں۔ سورۂ بنی اسرائیل میں فلسطین سے بنی اسرائیل کی دو مشہور جلاوطنیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے توقع ہے کہ تمھارا رب تم پر پھر رحم کرے گا۔ لیکن اگر تم نے دوبارہ یہی رویہ اپنایا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید نے یہ بات البتہ واضح فرما دی ہے کہ بنی اسرائیل کو اب قیامت تک پہلے کی طرح آزادی، استقلال اور خود مختاری حاصل نہیں ہو گی، ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ ان پر ہر جگہ ذلت کی مار پڑی، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں۔

اس تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یہودی ابتدا میں نسل کشی کے مرتکب ہو کر فلسطین پر زبردستی قابض ہوئے تھے۔ اور شمالی فلسطین میں وہ صرف چار پانچ سو برس تک آباد رہے۔ جبکہ جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نوسو برس رہی اور عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں کم وہ بیش دو ہزار سال سے آباد چلے آرہے ہیں۔ اس طرح سرزمین فلسطین پر یہودیوں کا مذہبی حوالے سے موقف نا صرف کمزورہے بلکہ حقائق کے منافی ہے جس کو مسلمان کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور مستقبل میں یہ تنازع ایک نئی جنگ کی بنیاد بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).