آزادی ایک نعمت ہے


آزادی ایک نعمت ہے۔ ہمیں یہ پاکستان بہت محنت اور جدوجہد کے بعد ملا اگر اس کی قدر آج ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ چودہ اگست انیس سو سنتالیس کو یہ ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس کا خواب علامہ اقبال ؒ نے دیکھا اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے اتفاق اور خلوص سے پورا کر دکھایا۔ آج ہم جو سکھ کا سا سانس لے رہے ہیں یہ اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے۔ پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ اس ملک کی قدر کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے اپنے خاندان بہن، بھائی اور عزیز و اقارب قربان کیے۔

ماؤں کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کیے گئے۔ کئی بچے یتیم ہوئے اور ساری زندگی والدین کی شفقت کو ترستے رہے۔ کتنی ماؤں بہنوں نے نہروں اور کنوؤں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی۔ یہ ملک مصیبتوں اور مشکلوں سے حاصل کیا گیا ہے اور لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔

چودہ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ملک میں شاہراہوں اور سرکاری عمارتوں کو جھنڈیوں اور برقی کمکموں سے سجایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس دن کی مناسبت سے لوگ گھروں اور گلیوں کو بھی جھنڈیوں سے سجا دیتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے آزادی کو اسی طرح مناتی ہیں۔ بچے بڑے اس دن نئے اور سبز رنگ کے کپڑے پہن کر آزادی کے دن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

چودہ اگست کو بچے بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور چمکتی عمارتوں کو دیکھ کر اور جگہ جگہ ملی نغموں کو سن کر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم کو چاہیے کہ ہم ان بچوں کو آزادی کی تاریخ سے روشناس کروائیں اور حکومت اور انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ اس دن کی مناسبت سے اچھے اچھے پروگرام منعقد کروائیں جن میں بچوں کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ مل سکے اور اصل کہانی سے واقف ہو سکیں۔ آزادی کی قدر و قیمت ان کشمیری ماؤں، بہنوں اور بچوں سے پوچھو جو کئی سال سے بھارت کی طرف سے ظلم و جبریت سہ رہے ہیں۔

”کھنچی ہوئی ہے دل پہ میرے خونی سرخ لکیر
تو ہی بتا دے کب ٹوٹے گئی پاؤں کی زنجیر ”

آزادی کے 73 سالوں کا ایک لمبا سفر طہ کر کے آج ہم اس سر زمین پر سانس لے رہے ہیں تو یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور ہم جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ ہم نے جس آزادی کے لیے جدوجہد کی آج ہم نے اسی آزادی کو مذاق بنا دیا۔ آزادی کے لیے جو جانیں قربان کر کے آئے تھے ان نو نظر انداز کر دیا۔ ہم جس اسلام کو بچا کر لائے تھے اس کو آج فرقوں میں قید کر دیا۔ آزادی رائے سے خود کو دور کر دیا اور تنگ نظری میں خود کو گرفتار کر لیا۔ جن فاسودہ رسومات کو چھوڑ آئے تھے ان کا دامن پھر سے پکڑ لیا۔

اگر علامہ اقبال کو اس قوم کا علم ہوتا تو وہ کیا خواب دیکھتے؟ ہمارے نوجوان کس راہ پر نکل پڑے ہیں جو کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کے نتائج میں طرف اندھیرا ہے اور ہمیں تو آنے والی نسلوں کے لیے اجالا کرنا تھا۔ بغیر سیلنسر کے موٹر سائیکل چلانا، پٹاخے بجانا یا پاگلوں کی طرح باجے بجانا ہم کس کو جگا رہے ہیں۔ ہمیں خود ابھی جاگنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).