سوختہ مسیحی جوڑے، فراموش احمدی سپوت، عدالت اور گلی کوچے


\"ramish-fatima\"کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والے ہجوم میں سے پانچ افراد کو سزائے موت سنا دی گئی، کیا عدالت سے سزائے موت سنانے کے اس فیصلے سے مسئلہ حل ہو گیا؟ کیا اس واقعے کے بعد کچھ بدلا ہے؟ کیا اب کسی الزام کے بعد ردعمل سے پہلے تصدیق ہوتی ہے؟ کیا اب کے بعد ملزم سے مجرم تک کا فرق مٹ گیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ مخصوص حلقے اس معاملے کو لے کر آج بھی جذباتی ہیں، وہ آج بھی ردعمل پہلے دیتے ہیں اور سوچتے تو شاید بعد میں بھی نہیں ۔ پچھلے دنوں ایک مسیحی نبیل اور ایک امام مسجد کی خبر بھی آئی جنہیں توہین کے الزام میں تھانہ کچہری بھگتنا پڑ رہا ہے۔

یہ ایک سوچ کو بدلنے کا عمل ہے جو شاید کسی سزا سے بدلا نہیں جا سکتا۔ قاتل کو سزا تو ملنی چاہیئے لیکن کیا اسے احساس ہے کہ اس نے محض ایک الزام پہ کس جرم کا ارتکاب کیا؟ کیا وہ اپنے کیے پر نادم بھی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ملک میں رہنے والے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ باقی سب کے عقائد کا احترام کرے، \"pakistani-christian-couple-accused-of-blasphemy-were-burned-alive-by-mob-1415383465\"عقائد کی بنا پر کسی قسم کی تفریق نہ ہو تو کیا یہ بات صرف اقلیتوں پر ہی لازم ہے یا اکثریت کو بھی یہ احترام کرنا چاہیئے؟ کیا جذبات صرف اکثریت کے ہیں جو ہر الزام یا افواہ سنتے ہی مجروح ہو جاتے ہیں؟ کبھی کسی کالونی پہ حملہ ہوتا ہے، کبھی گھروں کو آگ لگتی ہے تو کبھی انسان جلا دیے جاتے ہیں۔ کیا اس انسان کے جذبات مجروح نہیں ہو سکتے جو اپنی قابلیت کی بنا پر کسی منصب کا اہل ہو اور اپنے عقائد کی وجہ سے اس کی اہلیت مشکوک ٹھہرے؟ یہ بحث سوشل میڈیا پہ ایک عجیب رنگ اختیار کر چکی ہے، ایک منصب جس کا تقاضا پیشہ ورانہ اہلیت کے سوا کچھ نہیں وہاں سب لوگ اپنے عقیدے کی آنکھ سے ہر نئے نام کو پرکھ رہے ہیں اور مسترد کر رہے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ کسی امیدوار کا تعلق اس فرقے سے نہیں ہے مگر احمدی سپہ سالار کیسے بن سکتا ہے؟ کی بحث نے وہی پرانی حقیقت پھر سامنے لا رکھی کہ عقیدے کو انسان سے زیادہ اہم سمجھا جا رہا ہے۔ ہمیں ٹرمپ کا جوشِ خطابت یاد ہے، شاید اسی وجہ سے کچھ الجھن بھی ہے مگر جہاں بیٹھے ہیں وہاں کے لاکھوں ٹرمپ امریکیوں کو ہزار طعنے مارتے ہوں مگر ان کے اپنے اندر بھی ایسا انسان بستا ہے جو عقائد، نسل پرستی اور صنف کے معاملے پر تفریق کا قائل ہے۔ ایک پروفیشنل جاب ہے، پیشہ ورانہ اہلیت جس میں ہو وہ کرے، منصب کا تقاضا ملک کی سرحد کی حفاظت ہے، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ آپ کے مکاتبِ فکر سے نہیں ہیں وہ آپ کی سرحد کی حفاظت نہیں کرتے؟ پینسٹھ کی جنگ جس کی کامیابی کا چرچا ہم آج بھی پڑھتے ہیں اس میں کچھ قابل لوگ وہ تھے جن کا عقیدے آج وجہ دشنام ٹھہرا ہے۔ کیا یہ یاد دلانے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ 1965 میں دریائے توی کے کنارے تک \"akhtar-hussain-malik\"پہنچ جانے والے میجر جنرل اختر حسین ملک احمدی تھے۔ کیا یہ بیان کرنے سے ہمارے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ ہے کہ چونڈہ میں ٹینکوں کی لڑائی کے دوران مثالی جرات اور اہلیت کا مظاہرہ کرنے والے بریگیڈیئر عبدالعلی ملک احمدی تھے۔ کیا یہ یاد دلانا غیرمناسب ہو گا کہ پاکستان کی فوج میں دوران جنگ شہادت پانے والے اعلیٰ ترین عہدے دار میجر جنرل افتخار احمد جنجوعہ احمدی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔  خیر خوشی کی بات یہ ہے کہ جہاز عقیدے سے نہیں اڑتا، پروفیشنل ازم سے اڑتا ہے، جنگ عقیدے سے نہیں، حکمتِ علمی سے جیتی جاتی ہے، اس ملک کی خاطر نیند قربان کرنے والا مخالف مکتبہ فکر کا مسیحا بھی ہو سکتا ہے اور سپاہی بھی۔ تاہم پیشہ ورانہ اہلیئت رکھنے والے اور کسی منصب پہ بیٹھے شخص کو اپنے عقیدے کی بنیاد پہ پرکھنے والا کیا ہوتا ہے؟ اس کے لئے مناسب لفظ آپ ہی تجویز کریں۔ اگر میں عرض کروں گی تو سماعت پہ گراں گزرے گا۔

کیا وجہ ہے کہ ہمارا نصاب یا ہمارے گھروں کا ماحول ہمیں نفرت ہی سکھاتا ہے؟ گمراہ ہی کرتا ہے؟ ہم ایم ایم عالم کا نام سنتے ہیں مگر ان کی زندگی کے حالات اور جو اپنے ہی ادارے پر تنقید کے بعد ان کے ساتھ گزری کیا وہ سب جانتے ہیں؟جسٹس کارنیلئس کے نام پہ انڈرپاس تو بن گیا لیکن کیا ہم اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں کہ ایک چیف جسٹس جو ہمارے عقیدے سے تعلق نہیں رکھتا تھا وہ اصول پسند اور غیر جانبدار ہو سکتا ہے؟ کیا ہمارے بچے گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کے نام سے واقف ہو \"18392_abdul_ali_malik_profile_pic\"سکتے ہیں؟ ہزارہ کی ٹارگٹ کلنگ کے دور میں کیا ہم جنرل موسی خان کے بارے میں پڑھا سکتے ہیں؟ یا پھر سوشل میڈیا پہ جاری اس دانش فروش بحث سے یہ ہی سیکھنے کو ملے گا کہ منصب عقیدے کی بنیاد پر طے ہوتا ہے ، پیشہ ورانہ اہلیئت کی دوڑ میں عقیدہ رکاوٹ بھی بن سکتا ہے؟ احمدی کا لفظ تو شاید ہی کہیں استعمال ہوتا ہو، \”قادیانیوں کے ساتھ لین دین بند\” کا اعلان  تو ہمیں اکثر جگہوں پہ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ کیا ہم اپنے نصاب میں یہ تبدیلی کر سکتے ہیں کہ ایک چوتھی جماعت کے بچے کو سوالوں کے جواب رٹوانے کے بجائے اسے جینے کا سلیقہ سکھائیں، اسے زندگی کی جانب لائیں جو ایک ہی بار ملتی ہے اور اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ کیا ہماری درس گاہوں اور ہمارے گھروں کا ماحول اتنا تبدیل ہو سکتا ہے کہ ہم اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیں ، یہ سب پڑھا بھی سکیں اور پھر کسی ویڈیو کے اپ لوڈ ہونے پر کسی استاد کی زندگی خطرے میں نہ پڑے؟

اجتماعی شعور جیسا بھی پسماندہ سہی، اسے ایک روز تو بدلنا ہی ہو گا، ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیے بغیر اور الزامات کی بحث میں الجھ کر محض چاند ماری کی جا سکتی ہے اور وہ بلاشبہ ہم بہت احسن طریقے سے کر لیتے ہیں۔جو نفرت نصاب نہیں سکھا پاتا وہ ہم گھروں میں سکھا لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مدرسے کی ویڈیو دیکھی جہاں پانچ سے آٹھ سال تک کے بچے لائن میں کھڑے تھے اور ایک صاحب \”سر تن سے جدا\” کے نعرے لگوا رہے تھے۔عقائد کی اس جنگ میں اپنی دکانداری کی خاطر ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں اور یہ کتنا خطرناک ہے شاید اتنے سانحوں کے بعد بھی ہم لوگ سمجھنے کو تیار نہیں۔ پاک فضائیہ کا جہاز اڑانے والے سیسل چوہدری اور ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر \”اینٹی ایئر کرافٹ چپل\” مارنے والوں میں \"group-captain-cecil-chaudhry\"کیا فرق ہے؟نفرت ، تعصب اور بغض کی اس مارا ماری میں یہ عجیب نہیں لگے گا کہ کل کو پھر ایک سانحہ ہو جائے، وہ نیا نہیں ہو گا مگر اس پہ افسوس ضرور ہو گا۔ یہ سب ایک پل میں بدلا نہیں جا سکتا یہ برسوں کا سفر ہے۔ عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے لیکن عقیدوں کا احترام تو گلی کوچوں میں سیکھا جائے گا۔ لیکن کیا ہم یہ پہلا قدم اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

اگر جواب ہاں میں ہے تو صرف یہ جاننے کی ہمت کیجئے کہ میجر جنرل (ریٹایرڈ) ناصر احمد چوہدری کون تھے اور انہیں نوے برس کی عمر میں کب، کہاں اور کیوں شہید کیا گیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments