نواز شریف کا متحرک انگوٹھا اور۔۔۔ کتنے گھوڑے تھے؟


\"zafarullah-khan-3\"یہ سوال نہایت اہم ہے کہ الیکٹرانک میڈیا قوم کی تربیت میں کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ ایک سادہ سی مثال پر غور کرتے ہیں۔ آپ یہ تو مانتے ہی ہوں گے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اب یہ بتایئے کہ تینتیس نیوز چینلز پر جو روزانہ سو ٹیلی افلاطون ہماری سماعتوں کا امتحان لیتے ہیں ان میں سے کتنے احباب کسانوں کے مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں؟ یا تو آپ بتائیں گے کہ پاکستان میں کسانوں کو زرعی مسائل درپیش نہیں ہیں یا پھر یہی کہہ سکتے ہیں کہ امریکن سنڈی اور دیسی کھاد کونسا موضوع ہے جو ٹی وی دکھایا جائے۔ ہمیں تو جب بھی ٹی وی دیکھنا نصیب ہوا وہی لوگ دیکھے۔ وہی چہرے ہیں۔ البتہ یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ویسے تو اکثریت تحریک ہیت مقتدرہ سے تعلق رکھتی ہے، کچھ کچھ البتہ آنکھ مچولی بھی کھیلتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صاحب ہوتے ہیں جن کا پرسوں ہم نے پھر سے نام سیکھا ۔ فواد چوہدری صاحب کہلاتے ہیں۔ چونکہ ان کو ایک دو بار ناشائستہ زبان میں کلام کرتے دیکھ چکے تھے اس لئے نام یاد رکھنے میں دلچسپی نہیں لی۔ یہ صاحب پہلے مشرف صاحب کے ترجمان ہوتے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی جوائن کر لی۔ ابھی پرسوں معلوم ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان ہیں۔ خاکسار کا خیال ہے کہ ان میڈیائی سیلیبرٹیز کو اب باقاعدہ پارٹی کارڈز جاری کئے جائیں تاکہ عوام مشکل سے بچ جائیں اور اپنی اپنی پارٹی کے ترجمان کے کہے کو حق جان کر سوشل میڈیا پر پھیلاتے رہیں۔ جند گنے چنے چہرے ہیں۔ فاٹا سے لے کر بلوچستان تک اور آرمی چیف کے چہرے سے لے کر ٹرمپ کے الیکشن تک ، تمام جملہ امور میں یکتا ہیں۔ فاٹا کے کیا مسائل ہیں یا بلوچستان کے کیا مسائل ہیں وہ ہمیں اسلام آباد میں بیٹھا ہوا وہ صحافی بتاتا ہے جس نے زندگی میں ایک دو بار کوئٹہ سرینا ہوٹل دیکھا ہو۔ کوئی اگر فاٹا یا بلوچستان سے چلا بھی رہا ہو کہ بھائی ہم بتاتے ہیں ہمارے مسائل کیا ہیں؟ تو یہاں سے کہہ دیا جاتا ہے کہ بھائی ہمارے پاس تجزیہ کار موجود ہے۔ ریٹنگ گارنٹی سے لاتا ہے۔ ٹویٹر اور فیس بک پر ہزاروں کی تعداد میں فالورز بھی رکھتا ہے۔ پروگرام کا لنک ٹویٹ بھی کرتا ہے اور فیس بک پیچ پر بھی ڈالتا ہے۔ آپ ادھر ہی رہیں۔ ہم انہی سے ماہرانہ رائے لے لیں گے۔

\"fawad-chaudhry\"

ماہرانہ رائے کیا ہوتی ہے یہ نا ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ ابھی پرسوں ہی کی بات ہے۔ ایک نیا نکور اینکر جس کی شہرت تحریک ہیت مقتدرہ سے ہے،سپریم کورٹ میں پانامہ کے مدعیوں کو کسی گمنام جگہ سے حاصل کردہ فائل سے زور دے کر بتا رہا تھا کہ مدعا علیہان پر کون کون سی جرح مزید کی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی ایک اور صاحب ہیں جو پچھلے پانچ سال سے قوم کی سماعت کا امتحان لے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کی ایک غیر اہم ویڈیو، جس میں نواز شریف جنرل راحیل کے کو متوجہ کرنے کے لئے ان کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کوئی جملہ کہہ کر ہنس دیتے ہیں ، پر تبصرہ کر رہے تھے۔ بہت کوشش کے باوجود کم ازکم خاکسار سمجھ نہیں سکا کہ موصوف کہنا کیا چاہتے ہیں اور یہ صحافت کی کونسی قسم ہے۔ موصوف کے جملے اقوال زریں من و عن پیش خدمت ہیں۔ آپ ہی بتایئے کہ یہ صاحب کہنا کیا چاہتے ہیں؟

” انگوٹھے والا ایکشن جو ہے، وہ میرا خیال یہ کہ خود، ابھی، میں نے ان کو پھر دیکھا ہے۔ میںپھر دیکھ دیکھ کے سوچا، وہ ایسے کر کے کیوں ہنسے ہیں؟ اچھا اس میں آرمی چیف تھے۔ پھر میں کیا کہوں؟ آرمی چیف کیوں نہیں ہنسے؟ اچھا پیچھے جو دو فوجی ہمارے بھائی ہیں وہ ہنس رہے ہیں۔ یعنی وہ، وہ ہنس رہے ہیں۔ میاں نوا۔ دیکھیں نا۔ یعنی میاں نواز شریف پوچھ رہے ہیں کیا یہ ٹینک ہے؟ ہاں یہ ٹینک ہے۔ اب وہ، یا تو، وہ ہنس رہے ہیں پیچھے کہ یار ٹینک۔ ایں۔ وہ ہنس رہے ہیں، آرمی چیف نہیں ہنس رہے۔ یہ ایک معاملہ ایسا ہے جس جو مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا۔ جس کی میں تحقیق میں لگا ہوا ہوں کہ آخریہ کیا۔ پھر میاں نواز شریف صاحب نے جو انگوٹھا اٹھایا ہے۔ تو انگوٹھا اٹھا کے یہ خود کلامی ہے یا انہوں نے اسحاق ڈار یا خواجہ آصف کو اشارہ۔ ہاں یہ دیکھیں نا یہ۔ یہ انگوٹھا ایسے نہیں اٹھا۔ یہ انگوٹھا یا تو۔ یہ جو ہے نا فٹ ہے۔ یا تو یہ اپنا معاملہ طے سیٹ ہوگیا۔ یعنی کیا سیٹ ہو گیا۔ آرمی چیف تو اپنی جگہ۔ انہوں نے کہا۔ آرمی چیف کی باڈی لینگویج دیکھیں نا، انہوں نے ایسے کیا ۔ سیریسلی وہ آگے دیکھ رہے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے۔ اور بلکہ مجھے لگا کہ ان کو تھوڑی ناگواری بھی ہوئی کہ میرے ہاتھ، میرے ہاتھ پہ کیوں ہاتھ لگایا؟ یہ کیا ہے بھئی؟ مطلب انہوں نے تھوڑا سا مطلب آپ ایسے بھی کر سکتے ہیں کہ ہمم ہمم مطلب آرمی چیف کو ایسے۔ ایک ہوتا ہے کہ وہ یہ تو بالکل۔ یعنی عجیب سی بات لگتی ہے۔ یوژولی ہوتا نہیں ہے۔ نہیں نہیں اس طرح ہوتا نہیں ہے۔ یوژولی ہوتا نہیں ہے اس طرح۔ آپ ہوتے ہیں نا۔ پرائم منسٹر ایسے کبھی بات کر لیتے ہیں۔ یہ ہوتا نہیں ہے اس طرح کہ آپ ایسے شو کریں کہ لوگوں کے سامنے بڑا، مطلب اور ایسا لگ رہا ہے کہ آرمی چیف نے تھوڑا سا ہاں۔ کہ ہاں جی ٹھیک ہے ۔ مطلب اس طرح ہوتا نہیں ہے کہ، مطلب آرمی چیف ایسے ہاتھ پکڑ لے۔ آرمی چیف تو نہ ہی پکڑیں تو بہتر ہے۔ لیکن فرض کریں۔ سوچیں نا۔ آرمی چیف ایسے ہاتھ پکڑ لے ہمم میاں نواز شریف صاحب کا۔ میاں نواز شریف صاحب کا کیا حال ہو گا؟ ہو ہی نہیںسکتا۔ تو ایک پروٹوکول ہوتا ہے لیکن بہرحال میاں نواز شریف صاحب نے کوشش کی کہ ذرا بے تکلفی والا شاٹ آئے جائے۔ وہ لیکن شاٹ ہم نے کیچ کر لیا۔ پھر وہ خوش ہوئے۔ پھر انہوں نے انگوٹھا اوپر اٹھایا۔ اور یہ ایک مسٹری ہے کہ انہوںنے۔ اور پیچھے دو جو شخصیات ہیں یونیفارم میں، وہ ہنس رہی ہیں۔ یعنی کوئی ایسی بات ہوئی ہے جو بالکل وہ بھی ہنس پڑے کہ کیا بات ہے یہ۔ اور آرمی چیف سیریس ہیں۔

تو صاحبو۔ اس کا کیا مطلب تھا اور یہ صاحب کیا سمجھانا چاہ رہے تھے یہ آپ ہی بہتر جانیں۔ ماما قادر البتہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی دو منٹ میں گیارہ مرتبہ آرمی چیف کا \"shahid-masood\"نام لے اور ان کے چہرے کی ناگواری کا اندازہ بھی لگا لے جو کہ ویڈیو میں دیکھنا قطعاَ ناممکن ہے، توبقول یوسفی صاحب ،اس آدمی کے لئے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔

 ماما قاد سے یاد آیا کہ ایک بار قبائلی معاشرے کی نفسیات بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ پرانے دور میں ہمارے اجداد کا پہلا مسئلہ نہیں تھا کہ روٹی کیسے کمائیں بلکہ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ گھوڑا کیسے خریدیں؟ جب گھوڑا مل جاتا تو پھر دشمن ڈھونڈتے رہتے تھے۔ عرض کیا ماما! گھوڑا ڈھونڈنے سے بہتر نہیں تھا کہ ایک اچھی ولایتی گائے خرید لیتے؟ کم ازکم بچوں کو روٹی کے ساتھ لسی تو مل جاتی۔ تو عرض ہے کہ صحافی روٹی تو پہلے بھی کما لیتا تھا۔ یہ جب سے صحافی سیلیبرٹی بنا ہے اور خبر انڈسٹری بنی ہے، تب سے ان سیلیبرٹیز نے گھوڑے پال لیئے ہیں۔ بعض نابغوں نے تو جہاز خرید بھی لیئے۔ گویا اب گائے بھی اپنی، گھوڑا بھی اپنا۔ اب جس کی مرضی عزت اچھال لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

عرض یہ ہے کہ میں تو ٹی وی نہیں دیکھتا۔ آپ کیوں دیکھتے ہیں یہ مجھے معلوم نہیں۔ غالباَ آپ کے پاس کوئی معقول وجہ ہو گی ٹی وی دیکھنے کی۔ میں تو فیس بک پر ایک آدھ کلپ دیکھ لیتا ہوں۔ ان ویڈیو کلپس سے جتنا مجھے علم ہوا ہے ، وہ یہ ہے کہ قوم کو گویا پچھلے تین سالوں میں ایک چند ہی مسائل درپیش تھے۔

 شیخ رشید کو زیادہ سے زیادہ ائیر ٹائم دو کیونکہ وہ ریٹینگ لا سکتا ہے ۔ آسان فارسی میں مفہوم یہ ہے کہ شیخ رشید اور کپل شرما میں سے زیادہ کون ہنسا سکتا ہے؟

فوج کب سبق سکھانے والی ہے؟ٹویٹاں والی سرکار نے کیا کہا؟ فوج سخت غصے میں ہے۔ چیف صاحب اتنے غصے میں تھے؟

 نواز شریف کی کب چھٹی ہونے والی ہے؟حسین نواز کی توشکل اچھی نہیں ہے، اس نے پیسے کیسے کما لئے؟

غدار کون کون ہے؟ انڈیا کا ایجنٹ کون کون ہے؟

عمران خان کے کس جلسے میں کتنے لاکھ آدمی تھے؟ کتنی کرسیاں تھیں؟ کتنے ٹینٹ اور قنات لگے تھے؟ یعنی ہر جلسے کے بعد گویا شعلے فلم لگتی ہے اور گبر پوچھتا ہے، سامبا! کتنے آدمی تھے؟

عین اس لمحے ماما قادر نے لقمہ دیا اور بولے، منڑا یہ پوچھو کہ کتنے گھوڑے تھے اور کس کے گھوڑے تھے؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments