آصف علی زرداری کی پیشی اور انصاف کے تقاضے


احتساب عدالت میں ایک بار پھر آصف علی زرداری نے پیش ہوکر ثابت کیا کہ وہ نہ صرف عدالتوں کا احترام کرتے ہیں بلکہ اداروں کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، زرداری صاحب نے بیمار ہونے کے باوجود، ڈاکٹرز کی جانب سے کسی بھی سرگرمی سے گریز کرنے، عوامی ہجوم میں جانے سے پرہیز کرنے کی سخت ہدایات کے باوجود نیب کورٹ میں پیش ہوکر ثابت کیا کہ وہ واقعی ہمت اور جرئت، عزم و مضبوط ارادوں کے مالک ہیں۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کی نیب عدالت میں پیش کے موقع پر جیالوں کی بڑی تعداد میں جمع ہونے کے خوف نے نیازی سرکار کے وجود پہ کپکپی طاری کر دی تھی نیب کورٹ پولیس اسٹیٹ کا منظر پیش کر رہی تھی، آصف علی زرداری صاحب کے وکلاء کو بھی عدالت جانے سے روکنے کی پوری کوشش کی گئی، یہاں تک کہ پولیس کے علاؤ سادہ لباس میں ملبوس نامعلوم افراد بھی ڈنڈے ہاتھوں میں پکڑے وہاں موجود نظر آئے، یہ وہی نامعلوم افراد لگ رہے تھے جو مریم نواز کی نیب لاھور میں پیشی کے موقع پر سارے ہنگامے کی جڑ بنے تھے۔

آج جس طرح اسلامی قانون، عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں اس کی جھلکیاں پچھلے دو سالہ نیازی اقتدار میں کئی بار نظر آئی ہیں، جس ملک میں اسلامی نظام رائج ہے، جہاں اسلامی جمہوری حکومت ریاست مدینہ بنانے کی خواہاں ہے وہاں پاکستان کے آئین سے مسلسل انحراف، انسانی و شہری حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اب روز کا معمول بن چکی ہیں، بدقسمتی سے ملک کی عدالت عظمیٰ کے محترم چیف جسٹس کو کراچی کی لوڈشیڈنگ نظر آجاتی ہے، ترقی کرتا روشن، چمکتا دمکتا کراچی کھنڈرات کی شکل میں نظر آتا ہے جس پہ وہ نوٹس بھی لیتے ہیں مگر اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 227 ( 1 ) کی مسلسل خلاف ورزی، اس آرٹیکل کی مسلسل انحرافی نظر نہیں آتی۔ آئین کی پاسداری قرآن و سنت کے مطابق عدل انصاف کی فراہمی عدالت عظمیٰ اور اس میں بیٹھے قاضی کا نہ صرف شرعی فرض ہے بلکہ آئینی ذمے داری بھی، مگر بدقسمتی سے آئین کے آرٹیکل 227 ( 1 ) کی خلاف ورزی نیازی راج میں سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔

آج ایک اور اہم واقعہ بھی پیش آیا جب محترم آصف علی زرداری کے خلاف ایک جعلی من گھڑت منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب کا ایک وعدہ معاف گواہ اسلم مسعود انتقال کر گیا، یاد رہے کہ اسلامی قانون عدل و انصاف میں وعدہ معاف گواہ کی کوئی شرعی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اس بات کا برملا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بھی کر چکی ہے مگر اسلامی قانون عدل و انصاف پہ دھبہ سیاہ نیب قانون اور اس کا چیئرمین اس کے باوجود وعدہ معاف گواہ بنا بنا کر عدالتوں میں پیش کرتا ہے اور عدالتیں باوجود شرعی ممانعت کے ان وعدہ معاف گواہوں کو پیش کرنے اور ان کی قانونی حیثیت کو قبولیت کا درجہ دے کر مسلسل آئین کے آرٹیکل 227 ( 1 ) سے انحراف کا ارتکاب کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت عدالت عظمیٰ کی قابل احترام ججز کئی بار اپنے ریمارکس میں نیب کے قانون کو قرآن و سنت کے قانون عدل و انصاف سے متصادم قرار دے چکے ہیں، مگر اس کے باجود عدالت عظمیٰ اسلامی جمہوری نظام پہ نیب جیسے بدنما دھبے غیر اسلامی غیر انسانی قانون کو کالعدم قرار دینے سے قاصر ہے، اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں یہ تو اللہ رب العزت ہی بہتر جانتا ہے مگر عدالت عظمیٰ کے قابل احترام چیف جسٹس جو قرآن و سنت کے قانون عدل و انصاف کی بالادستی اور آئین کی پاسداری کا حلف لے کر انصاف کی کرسی پہ براجمان ہیں کو ایسے مکروہ قانون کو تبدیل کرکے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں، انہیں ملک میں تیزی سے بڑھتی انسانی شہری حقوق کی خلاف ورزیوں نیب کی دہشتگردی اور غیر شرعی سرگرمیوں کو روک لگانے کے لیے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہ صرف آئین کی پاسداری اور احترام کے پابند ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے آگے ریاست کی عوام کو قرآن و سنت کے مطابق عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے جوابدہ بھی ہیں۔

سپریم کورٹ کے قابل احترام چیف جسٹس نے نیب کے قانون کے خلاف ازخود نوٹس کیس میں حکومت کو تین ماہ کی مہلت دی تھی تاکہ نیب قانون میں موجود خرابیاں اور قباحتیں دور کرکے اس کو قرآن و سنت کے قانون کے مطابق بناکر پارلیامینٹ سے قانون سازی کی جائے مگر آج اس مہلت کو ختم ہوئے بھی چھ ماہ گزر گئے نہ ہی ازخود نوٹس کا کوئی نوٹس ہوا نہ ہی نیب قانون پہ لگی ظلم، جبر و نا انصافی کی سیاہی مٹ سکی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کی ضمانت کے کیس میں سپریم کورٹ کے قابل احترام جج جناب مقبول باقر نے جو نیب قانون اور نیب ادارے کے بارے میں اپنے فیصلے میں لکھا ہے اس کے بعد نیب قانون کی باقی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی، لیکن اتنی عزت افزائی کے بعد بھی نیب چیئرمین اور ادارے کی ڈھٹائی اور بے شرمی میں کوئی کمی نہیں آئی، سپریم کورٹ میں آج بھی نیب کی غنڈہ گردی کا شکار مرحوم برگیڈئیر اسد منیر کا خط قانون و انصاف کا منہ چڑا رہا ہے، جس میں انہوں نے اپنی موت کا ذمے دار نیب اور چیئرمین نیب کو قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس سے بعد از موت انصاف کی درخواست کی تھی۔

نیب نہ صرف اسلامی عدل و انصاف کے چہرے پہ سیاہ دھبہ ہے بلکہ پاکستان کے آئین کی روح کے بھی منافی ہے اور اسی آئین کی پاسداری اور حفاظت کا حلف ہمارے محترم چیف جسٹس نے بھی لیا ہوا ہے، آج نیب گردی کے شکار ملک کے سیاستدانوں سے لے کر بیوروکریسی، میڈیا گروپ کے سربراہ اور کاروباری طبقے کے افراد کے لیے تو کئی آوازیں بلند ہوتی ہیں مگر جو عام پاکستانی نچلے درجے کے سرکاری ملازمین، پٹوری، کلرک نیب کی نیب گردی، ظلم و نا انصافی کا شکار ہیں ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور ان کے لیے صدائے حق بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

محترم چیف جسٹس پاکستان جو پاکستان کے سب سے بڑے منصف کے منصب پہ براجمان ہیں انہیں انتظامی معاملات میں نوٹس لینے کے ساتھ ساتھ آئین سے انحراف پہ بھی از خود نوٹس لینے چاہئیں، پاکستان کی عوام کے انسانی حقوق کی پامالیوں پہ بھی انہیں نوٹس لے کر اداروں کو آئینی حدود میں رہنے کے سخت احکامات صادر کرنے چاہئیں، نیب جیسے کالے مکروہ قانون کے تحت جابرانہ اختیارات کے حامل افراد کی دہشتگردی اور غنڈہ گردی کا بھی نوٹس لینا چاہیے اور کھلے عام اسلامی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والوں کے لامحدود غیر اسلامی اور غیر انسانی اختیارات کو محدود کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ معاشرے میں پھیلے عدم تحفظ، بے چینی اور نا انصافیوں کا خاتمہ کرکے آئین کے تحت اسلامی عدل و انصاف پہ مشتمل قانون کو یقینی بنایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).