کراچی کے بحران کا المیہ


کراچی کا بحران بہت پیچیدہ اور مشکل بھی ہے۔ کیونکہ کراچی میں موجود سیاسی فریقین خود بھی اس بحران کے حقیقی ذمہ دار ہیں اور بحران کے حل میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیوایم، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت جماعت اسلامی وہاں کے حقیقی فریقین کے طور پر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان تمام فریقین کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی اور بداعتمادی سمیت کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار، تشدد و لاقانونیت کی سیاست نے کراچی کی شہری سیاست کا منظر نامہ ہی تبدیل کر دیا ہے۔ اس وقت کراچی کا بڑا سیاسی مینڈیٹ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ تحریک انصاف وفاق میں حکومت اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں اس کی اہم اتحادی جماعت ہے۔ لیکن اس کے باوجود کراچی کا بحران کم نہیں بلکہ شدت کے ساتھ خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔

ایک وجہ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان تناؤ یا بداعتمادی کی فضا ہے تو دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے درمیان بھی ایک دوسرے کی قبولیت سے جڑے مسائل ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کو سب سے بڑا گلہ یہ ہی ہے کہ سندھ کی حکومت نے کراچی کی شہری یعنی مقامی حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے بقول تمام تر اختیارات کا مرکز وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ ہیں، جبکہ شہری حکومت عدم اختیارات کا شکار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم کی نہ صرف حمایتی ہے بلکہ اس کے بقول اس ترمیم نے وفاق کے مقابلے میں صوبوں کو زیادہ با اختیار اور خود مختار بنادیا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کا لطیفہ یہ ہے کہ وہ سندھ میں موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی بھی سطح پر 1973 کے دستور کی شق 140۔ Aکے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں، جو عملاً 18 ویں ترمیم و جمہوری روح کے ہی منافی ہے۔

دنیا بھر میں بڑے میگا شہروں کا نظام عمومی شہری نظام سے بہت زیادہ مختلف ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑے شہروں کے مسائل دیگر شہروں کے برعکس مختلف ہوتے ہیں اور یہاں روایتی نظام سے نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں کے مسائل کو غیر معمولی انداز اور نظام کی بنیاد پر چلایا یا تشکیل دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم چھوٹے اور بڑے شہروں کے نظام کو یکساں بنیادوں پر چلا کر مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس میں اور زیادہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

مسئلہ یا المیہ یہ ہے کہ ہم نے 18 ویں ترمیم تو کرلی لیکن نظام کو چلانے کی جو سیاسی روش ماضی میں مرکزیت کے نظام کی بنیاد پر قائم تھی وہی آج بھی قائم ہے۔ اسلام آباد وہاں سے بیٹھ کر پورے ملک کا نظام اور صوبے اپنے دارالخافہ سے بیٹھ کر پورے صوبے کا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ ایسے نظام کو مرکزیت کا نظام کہتے ہیں جہاں سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر وسائل کی تقسیم کے عمل کو ایک خاص دائرہ تک محدود کرکے حکمرانی کے نظام کو مفلوج رکھا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سندھ میں یہ تیسری تسلسل کے ساتھ حکومت ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت پچھلے تیرہ برسوں سے قائم ہے لیکن اس نے 2010 میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود سندھ کی سیاست میں اختیارات کو تقسیم کرنے کی بجائے وہی غلطیاں کو دوبارہ دہرایا جا رہا ہے جو ماضی کی سیاست کا حصہ تھا۔ اگرچہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی اور ضرورت کو بنیاد بنا کر مقامی نظام کی تشکیل اور مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

لیکن سندھ ہی نہیں بلکہ چاروں صوبوں کی صوبائی حکومتیں مقامی نظام کو مضبوط بنانے کی بجائے اس کی تشکیل یا اسے خودمختاری دینے کے خلاف ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض صوبائی سطح پر موجود حکومتیں مقامی نظام کو تن تنہا مضبوط بناسکیں گی، وہ غلطی پر ہیں۔ وفاق کا کردار تین صورتوں میں موجود ہونا چاہیے۔ اول مقامی حکومتوں کے انتخابات کا تسلسل اور بروقت انتخابات، دوئم آئین کی شق 140۔ Aکے تحت صوبے ان اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو یقینی بنائیں اور اگر آئین کی اس شق سے انحراف کیا جائے تو صوبوں کی جوابدہی کو ممکن بنایا جائے۔ سوئم وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شہریوں یا خاص طور پر محروم طبقات کی اس مقامی نظام میں آئین کی شق 32 کے تحت بھرپور شمولیت۔ یعنی وفاق کو ایک بڑا فریم ورک صوبوں کو مقامی نظام کی صورت میں دینا ہوگا کہ وہ اس دائر ہ کار میں نظام کی تشکیل نو کریں۔

کراچی میں مسئلہ محض گندے نالوں کی صفائی کا ہی نہیں ہے بلکہ شہری نظام سے جڑے تمام مسائل جن میں ناجائز تجاوازت، صفائی کا نظام، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کا نظام، بے ہنگم ٹریفک، سٹریٹ کرائم، امن و آمان، پارکوں کی تعمیر، پارکنگ کے مسائل، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوذی، پولیس وعدم سیکورٹی نظام، منشیات کی خریدو فروخت سمیت بنیادی سوک ایجوکیشن کی بنیاد پر شہری حکومتی نظام بڑے مسائل ہیں۔ یہ تمام مسائل یقینی طو رپر ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ تحریک انصاف جو خود مقامی نظام کی بڑی حمایتی سمجھی جاتی ہے لیکن اس کا بھی مجموعی کردار عملاً مقامی نظام کے خلاف نظر آتا ہے۔

وفاقی سطح سے کراچی کے مسائل کے حوالے سے ہمیں مختلف خبریں سننے کو ملتی ہیں جن میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کراچی کے نظام کو وفاق اپنے کنٹرول میں لے سکتی ہے، جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ اصل مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ سندھ کا مقامی حکومتوں کا نظام کا جو نظام ہے وہ خود ایک فرسودہ نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس موجودہ مقامی نظام کے تحت حکمرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانایا عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں۔

اسی طرح جب صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں ہی مقامی نظام کی مضبوطی نہیں تو پھر اس نظام کی کامیابی کے امکانات اور زیادہ محدود ہو جاتے ہیں۔ بڑی رکاوٹ ہمارے ارکان اسمبلی ہیں جو ترقیاتی فنڈ کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کا حصول ان کا استحقاق ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی خود مقامی نظام حکومت میں ایک بڑی سیاسی رکاوٹ ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ مقامی نظام کی موجودگی سے ان کے اختیارات محدود ہوتے ہیں اور وہ بھی نظام کو کمزور رکھنا چاہتی ہے۔

کراچی کی سیاست کو تباہ کرنے میں سیاسی اور فوجی دونوں حکومتوں کا کردار ہے۔ خاص طور پر جنرل مشرف اور اس کے بعد ایم کیو ایم سمیت پیپلزپارٹی خرابیوں کی ذمہ دار ہیں۔ اب خود تحریک انصاف بھی ان خرابیوں کو برقرار رکھنے میں ایک فریق بن گئی ہے۔ این ڈی ایم اے کو جب کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے بلایا گیا تو ان کا پہلا بی ہی کافی حد تک درست تھا۔ ان کے بقول ہماری آمد عارضی ہے، اصل مسئلہ وفاق، سندھ اور کراچی کی شہری حکومت کا بیٹھنا اور شہر کے ماسٹر پلان کو ترتیب دینا اور عملدرآمد کرنا ہے۔

اب کہا جا رہا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت پر وفاق اور سندھ حکومت ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ ایک چھ رکنی نگران کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں وفاق کی جانب سے تحریک انصاف کے وفاقی وزیر اسد عمر، علی زیدی اور ایم کیو ایم کے امین الحق شامل ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت کی نمائندگی پیپلز پارٹی کے دو صوبائی وزرا ناصر شاہ اور سعید غنی کریں گے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ اس مشاورتی کمیٹی کے سربراہ ہوں گے ۔

اچھی بات ہوگی کہ اگر تینوں جماعتوں پر مشتمل یہ کمیٹی حقیقی معنوں میں کراچی کے مسائل کے حل میں کوئی کلیدی اور شفاف کردار ادا کرسکے۔ لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کمیٹی خود وفاق اور سندھ نے نہیں بنائی بلکہ ان پر اوپر سے دباؤ ڈالا گیا ہے کہ مزید تنازعات پیدا کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر کراچی کے بحران کا حل تلاش کریں، کاش یہ ممکن ہو سکے۔

اصل مسئلہ کراچی کے بحران کے تناظر میں کمیٹی کی تشکیل نہیں بلکہ وفاق کو سندھ سمیت تمام صوبوں کو اس نکتہ پر لانا ہوگا کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کی نئے سرے سے تشکیل نو کریں اور نظام میں روایتی انداز فکر اختیار کرنے کی بجائے اس میں جددیت بھی پیدا کریں اور دنیا سے سیکھیں کہ انہوں نے بڑے شہروں کی حکمرانی کے نظام کو کیسے موثر اور شفاف بنایا ہے۔ لیکن جو موجودہ سیاسی تقسیم یا ٹکراؤ ہے اس میں ان تمام سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھ کر کراچی کے بحران کو حل کرنا مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).