بے جی دل راج کور کی کہانی


مہندر سنگھ دگل مونا سکھ نہیں بلکہ فیشنی سکھ تھا۔ یوں کہئے کہ وہ ایک ماڈرن سکھ تھا جس کی علامتی داڑھی تھی اور وہ میچنگ پگڑی اور ٹائی پہنتا تھا۔ ہم سب اسے موڈی کے نام سے بلاتے تھے۔ موڈی سے میری ملاقات آسٹریلیا کے خوبصورت شہر سڈنی کے ایک کافی شاپ میں ہوئی تھی جہاں وہ اور میں روزانہ تقریباً دس بجے اپنے اپنے دفاتر سے کافی بریک کے لئے جایا کرتے تھے۔ میں اسے ہندوستانی سمجھا تھا لیکن تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ وہ پیدائشی برٹش تھا۔ یوں اس کے روزانہ کافی شاپ کے اخراجات کی بھی وضاحت ہو گئی۔ عام طور پر بھارت نژاد لوگ اخراجات میں خاصے محتاط ہوتے ہیں اور وہ دفاتر میں ملنے والی مفت چائے اور کافی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

شادی کے بعد موڈی اور اس کی بیوی بہتر معاشی مواقع اور انگلستان کے یخ بستہ اور اداس موسم سے چھٹکارا پانے کے لیے آسٹریلیا منتقل ہو گئے تھے۔ وہ اردو سمجھ لیتا تھا۔ پنجابی ٹوٹی پھوٹی سی بولتا تھا لیکن انگریزی اس کی نہایت شایستہ اور نکھری ہوی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کے بزرگ 1947ء میں راولپنڈی سے انڈیا اور وہاں سے انگلستان چلے گئے تھے۔ یوں اچھی کافی کے علاوہ راولپنڈی ہماری دوستی کی وجہ بن گئی۔ پھر ایک دن اس نے مجھے اپنے گھر مدعو کیا۔ میرے پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ انگلستان سے اس کی کوئی آنٹی آئیں ہیں اور وہ پنڈی کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہیں۔

مقررہ دن اور وقت میں موڈی کے گھر پہنچ گیا۔ پہلی حیرت یہ ہوئی کہ گھر کے تمام افراد بشمول موڈی میری مادری زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ گو اس میں کہیں کہیں ہندی اور انگریزی الفاظ کا استعمال تھا لیکن وہ ٹھیٹھ پوٹھوہاری تھی۔ زیادہ حیرت مجھے موڈی کو پوٹھوہاری بولتے دیکھ کر ہوئی۔ میں نے پوچھا تو کہا ’’می کی پنجابی نہیں اسنی گھر اساں بخسی بولنے آں‘‘ (مجھے پنجابی نہیں آتی گھر میں ہم بخشی بولتے ہیں) پوٹھوہاری کو وہ بخشی کہتے تھے۔ میں دل میں بہت شرمندہ تھا کیونکہ ان جیسی اچھی پوٹھوہاری یا بخشی نہیں بول سکتا تھا۔ اب بھی نہیں بول سکتا۔ میری اردو اور پنجابی زیادہ رواں ہے۔

وہ بزرگ خاتون دل راج کور قابل رشک صحت اور شاندار شخصیت کی مالک تھیں۔ سب انہیں بے جی پکار رہے تھے۔ بے جی نے بتایا کہ وہ کلرسیداں سے تھوڑا دور ایک گائوں چوہا خالصہ کی رہنے والی ہیں۔ 1947ء میں وہ تقریباً 13سال کی تھیں جب وہ بیاہ کر پنڈی آئی تھیں۔ ان کا سسرال کا گھر کرتار پورہ میں تھا۔

آج کا چوہا خالصہ

” مجھے تاریخیں یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے میری شادی فروری انیس سو سینتالیس میں ہوئی تھی۔ شادی سے پہلے میں کلر تک ہی آئی تھی یا پھر نزدیک کے گائوں اور میلے ٹھیلوں میں جانا یاد ہے۔ اس زمانے میں ھمارےگاؤں سے راولپنڈی آنے میں دو دن لگ جاتے تھے۔ زیادہ تر لوگ ٹانگے یا اونٹوں پر سفر کرتے تھے تھے۔ روات سے لاریاں چلتی تھیں لیکن میں نے کبھی لاری کا سفر نہیں کیا تھا۔ ہاں میری بارات لاری پر آئی تھی۔ وہ ہمارے گاؤں پہلی کی بارات تھی جو لاری پر آئی تھی۔ اس وقت رواج ہوا کرتا تھا کہ شادی والے دن دلہا دلہن کا سامان تحفے تحائف سب کو دکھائے جاتے تھے۔ رخصتی کے بعد ہم تو اسی دن راولپنڈی پہنچ گئے۔ لیکن ہمارا سامان ان اونٹوں پر تیسرے چوتھے دن پہنچا تھا۔”۔۔۔۔۔۔۔ بے جی لگتا تھا کسی ٹرانس میں تھیں اور ہم سب ان کی یادیں سن رہے تھے۔

 ’’ اس زمانے میں آج کل کی طرح دلہنیں اوچھ اوچھ نہیں کرتی پھرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے ہم پورے کنبے کے ساتھ لکشمی سینما (خورشید سینما) فلم دیکھنے گئے تھے۔‘‘۔۔۔ “بہرحال میں تو ایک عام سی دیہاتی لڑکی تھی مجھے سیاست وغیرہ کی کوئی سمجھ نہیں تھی لیکن میں اپنے میکے اور سسرال میں اپنے بڑوں سے اکثر سنتی تھی کہ شاید ہم محفوظ نہیں تھے۔ مجھے حیرت ہوئی تھی کہ ہمارا گھر ہمارا گائوں کیسے غیر محفوظ ہوسکتا تھا۔ پھر مارچ 1947ء میں فسادات شروع ہوگئے۔ ہمارے چوہا خالصہ میں تو امن رہا لیکن ہمارے گائوں سے تھوڑا دور تھوہا خالصہ میں کچھ ایسا ہوا کہ جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا”…..وہ خاموش ہوگئیں۔ میں تھوہا خالصہ کے المیے سے واقف تھا لیکن ان کی زبانی سننا چاہتا تھا۔

 ” نہ جانے تھوہا خالصہ میں وہ سب کچھ کیوں ہوا؟ وہاں بلکہ پورے پوٹھوہار میں ہم سب نسلوں سے امن اور سکون سے رہ رہے تھے۔ بلوائیوں نے جب حملے شروع کئے تو فیصلہ ہوا کہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنا دفاع کریں گے۔ سب لوگ سردار گلاب سنگھ کی حویلی جس کے ساتھ علاقے کا بڑا گردوارہ بھی تھا میں منتقل ہو گئے۔ حملوں میں شدت آتی گئی اور حملہ آوروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔۔۔۔ پھر ایک معاہدہ ہوا۔ حملہ آوروں کو ایک خطیر رقم دی گئی اور انہیں اجازت دے دی گئی کہ وہ مکانوں میں سے جو چاہیں لے لیں۔۔۔۔ لیکن آگ نہ لگائیں اور کسی کی جان نہ لیں۔ لیکن حملہ آوروں نے معاہدہ توڑ دیا جس پر سب نے فیصلہ کیا کہ لڑتے ہوئے مر جائیں گے۔ حویلی میں ایک بڑا کنواں بھی تھا۔ عورتوں اور بچیوں نے اس کنویں میں چھلانگیں لگا دیں اور ڈوبتی گئیں یہاں تک کہ ڈوبنے کی جگہ ہی نہ بچی۔ کہتے ہیں 100سے زیادہ نے اپنی جانیں اس کنویں کے سپرد کی تھیں۔” سب کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔۔۔ لیکن بی جی چہرہ سپاٹ تھا۔

 “پھر فوج آگئی۔ لارڈ موئنٹ بیٹن اور اس کی بیوی بھی تھوہا خالصہ آئے تھے۔ ساری سکھ آبادی روات اور گوجر خان کیمپوں میں منتقل ہوگئی۔۔۔ پھر پنڈی میں فسادات ختم ہوگئے۔ لگتا تھا امن ہوگیا ہے لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ شا ید لاوا پک رہا تھا۔ میرے سسر جی اور بھائی صاحب دلی کا چکر لگا کر بھی آئے لیکن پھر بھی کسی کو یقین نہیں تھا تھا کہ ہمیں پنڈی سے جانا پڑے گا۔۔۔ یقین آتا بھی کیسے؟ ہم پوٹھوہاری تھے۔ یہی ہمارا وطن تھا۔ لیکن افسوس آزادی کے اعلان کے ساتھ ہولناک فسادات اور قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔ ہم سب کو اپنے گھر بار‘ مال متاع‘ خواب‘ خیال چھوڑ چھاڑ کر جانا پڑا۔ میرے خاوند اور بڑے بھائی راولپنڈی رہ گئے۔ اس وقت سب کا خیال تھا کہ کچھ عرصے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘ امن ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور وہ دونوں مارے گئے۔‘‘

بے جی آپ خفا تو ہوئی ہوں گی؟ میں نے پوچھا

‘”ہاں پتر…..تم خود سوچو شادی کے پانچ چھ ماہ کے بعد میں بیوہ ہوگئی تھی۔ میری دنیا میرے گھر اور میرے گاؤں تک محدود تھی۔ لیکن میں خفا ہوتی تو بھی کس سے ہوتی۔۔۔ اگست میں جب فسادات شروع ہوئے تو سسر جی کے دوست جنہیں ہم چاچا افضل کہتے تھے۔ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ ہماری گلی میں پہرہ دیتے تھے۔ جب ہم دلی کے لئے ٹرین پر سوار ہوئے تو وہ لاہور تک ہمیں چھوڑنے آئے حالانکہ ٹرین فوج کی حفاظت میں تھی۔ پھر جب ٹرین واہگہ سے آگے نکلی تو ہم نے جگہ جگہ لاشیں دیکھیں‘ گھر‘ کھیت‘ کھلیان اور گائوں جلتے دیکھے تو اس عمر میں بھی میں سمجھ گئی تھی‘ لیکن شاید پھر بھی میں ناراض رہتی اگر وہ ہاتھ نہ دیکھتی۔‘‘

ہاتھ؟

” ہاں ایک ہاتھ…..جس سیٹ پر میں بیٹھی تھی تو میرے سامنے ہماری بوبو (پھوپھو) بیٹھی تھیں۔ وہ بیت الخلا گئیں تو مجھے سیٹوں کے جوڑ میں ایک ہاتھ دکھائی دیا۔ یہ بتا دوں پوری ٹرین میں سڑتے اور جلے ہوئے گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے وہاں وہ ہاتھ عجیب سا لگا میں نے اٹھ کر اسے پکڑا تو وہ ایک کٹا ہوا ہاتھ تھا۔۔۔۔ کسی میرے جیسی لڑکی کا۔۔۔۔ جس پہ مہندی رچی ہوئی تھی اور ایک انگلی میں نازک سا چھلا تھا۔۔۔۔ شائد وہ کاٹنے والے کو نظر نہیں آیا۔۔۔ یا وہ کلائی کی چوڑیاں اتارلے گیا۔۔۔۔ میں نہیں جانتی…..مجھے ابکائی آئی اور پھر میں سکتے میں چلی گئی۔ وہ ہاتھ میرا بھی ہوسکتا تھا”۔۔۔۔ پہلی بار میں نے بے جی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔

 پھر وہ بولیں۔ ” اس وقت تو مجھے زیادہ سمجھ نہیں تھی لیکن آج میں جانتی ہوں کہ ہم سب پاگل ہوگئے تھے۔ ہمارے درمیان احترام تھا ‘محبت تھی ‘نسلوں کے رشتے ناطے تھے ہم نے وہ سب ختم کر دیا۔ سب سے زیادہ ظلم اور دکھ ہم عورتوں نے جھیلے۔”

“آپ کو اپنا گھر اپنا گائوں اب بھی یاد آتا ہے؟” میرا سوال یقینا احمقانہ تھا۔

’’ایک ایک اینٹ یاد ہے مجھے چوھا خالصہ کی۔ گائوں سے باہر ایک کس (نالہ) جس ہم سند کہتے تھے اس کا ٹھنڈا پانی، آم کے باغ، کھیت، کھلیان سب یاد ہے۔۔۔۔۔ سائیں ڈھیری سرکار کا میلہ، گرم جلیبیاں اور میٹھے چاول کیسے بھول سکتی ہوں۔ میری سہیلیاں نسیم، کلثوم، گلاب کس کس کانام لوں۔ بس پتر مجھے ایک دفعہ لے جائو پنڈی۔‘‘

’’لیکن بے جی وہاں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہو گا؟‘‘

 ’’بدل گیا ہوگا‘‘۔ وہ بولیں۔’’لیکن وہاں درخت تو ہوں گے۔ چوھا خالصہ کے کنویں خشک تو نہیں ہوئے ہوں گے۔ ہمارے سند میں پانی آتے ہوں گے۔ میں ایک دفعہ ان پانیوں سے اپنے پائوں بھگونا چاہتی ہوں۔”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).