جینے اور زندہ رہنے میں کیا فرق ہے؟


زندگی کیا ہے؟ یہ سوال بہ ظاہر سادہ مگر بہ باطن بڑا پیچیدہ ہے۔ ہر شخص کے پاس زندگی تو ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر آدمی کے جینے میں زندگی بھی ہو۔ جینے میں اور زندگی میں فرق ہے۔

یہ تفریق ایسی ہی ہے جیسی آزادی اور غلامی میں ہے۔ غلامی میں زندہ رہنا جینا ہے اور آزادی میں سانس لینا زندگی ہے۔ آزادی اور غلامی کی دو صورتیں ہیں، ظاہری اور باطنی۔ بہ ظاہر آزاد انسان بہ باطن غلامی کے زنداں میں محبوس ہو سکتا ہے اور بہ ظاہر غلامی کے قفس میں مقید، باطنی سطح پر آزاد ہو سکتا ہے۔ آزادی اور غلامی کی اسی نوعیت کو مدنظر رکھیں تو ہم جینے میں اور زندگی کرنے میں موجود تفرق کوسمجھ سکتے ہیں۔ یہاں مجھے انگریزی ادب کا ناول نگار اور شاعر، ڈی۔ ایچ۔ لارنس یاد آ رہا ہے۔ اس نے ایک بات کہی تھی جس سے زندگی اور جینے میں موجود فرق کو سمجھا جا سکتا ہے، لارنس نے کہا تھا کہ اگر بینک کا ایک معمولی ملازم کسی دکان سے اپنی ضرورت کے لیے ایک ٹوپی خریدتا ہے اور اسے پہن لیتا ہے تو یہ جینا ہے، لیکن یہی ملازم اگریہ ٹوپی بڑے شوق سے خریدتا ہے اور پہن کر اپنے اندر ایک سرشاری محسوس کرتا ہوا بڑے جوش وجذبے سے چلنے لگتا ہے، تو یہ زندگی ہے۔ مطلب زندگی شعوری سطح پر کسی جذبے کے احساس کے تحت جینے کا نام ہے اور خود کار طریقے سے فقط سانس لینے کو ہم جینا تو کہہ سکتے ہیں، زندگی نہیں کہہ سکتے۔ لاشعوری طور پر سانسوں کی کشتی کو زمانے کے بہاؤ کے ساتھ بہنے دینا بھی محض جینا ہے، زندگی نہیں۔

میرے خیال میں زندگی کا آغاز تب ہوتا ہے، جب انسان اپنی مرضی اوراپنے انتخاب کی آزدی کو استعمال کرنا اور محسوس کرنا شروع کرتا ہے۔ فرانسیسی فلسفی اورمفکر، سارتر نے کہا کہ انسان کے پاس سب سے بڑی آزادی، حریت فکر کی آزادی ہے۔ یعنی آپ جس حال میں بھی ہیں آپ کو سوچنے کی لامحدود آزادی ہے۔ آپ جو مرضی سوچیں آپ کی سوچوں پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت کم انسانوں کو اپنی آزادی کی اس لامحدودد وسعت کے اختیار کا شعور ہوتا ہے یا بہت کم لوگ اپنے اس اختیار کا استعمال کرتے ہیں یا کرنا جانتے ہیں۔

ہم تفکرات، توہمات، خواہشات، جذبات، زمانیات ومکانیات کے زنداں میں خود کو قید کر کے اپنی آزادی کا گلا گھونٹ لیتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ہم نہیں ہماری یادیں عجوبہ ہیں۔ انسانی فکر وخیال بھی ایک ایسے تخم کی مانند ہے جس کا ایک بیج ذہن کی زمین میں ہم بوتے ہیں تو تھوڑی سی توجہ کے پانی سے ایسی نمو پانے لگتا ہے کہ دل و دماغ اس خیا ل کا کشت زار بن جاتا ہے۔ جب ہم خیال کے اس کشت زار میں گھومتے گھومتے دور کہیں کھو جاتے ہیں تو ہم اس پہلے لمحے کو بھول جاتے ہیں جب ہم نے خود اپنی آزادی کے ساتھ اس خیال کی تخم ریزی کی تھی۔

اس نسیان کی وجہ سے ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم افکاروخیال کے آگے بے بس ہیں۔ اسی وجہ سے ہم اکثر کہتے ہیں کہ میرے تفکرات میرے بس کی بات نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مخصوص خیال نے مجھے چنا ہے میں نے خیال کو نہیں چنا، یاد نے مجھے چنا ہے میں نے یادوں کو نہیں چنا، خواہش نے میرا انتخاب کیا ہے میں نے اس کی تمنانہیں کی۔ ہم کسی خیال، یاد، تمنا یا کسی زمان یا مکان کا پہلا بیج ذہن میں بوتے ہیں پھر جیسی ہماری زمین ذہین ہوتی ہے ویسا ہی اس تخم کا فصل وہاں لہلہانے لگتا ہے اور ہم خود کو اس میں مقیدمحسوس کرکے کراہنے لگتے ہیں یا رقص کرنے لگتے ہیں۔

یہاں مجھے فرانسیسی شاعر بودلیئر کی نظم ”مست رہو“ یاد آ رہی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم شاعری میں، شراب میں یا کس شے میں مست رہنا چاہتے ہو۔ یعنی زندگی کا وجود وہاں ہے جہاں آپ اپنے اختیار کا ادراک رکھتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنی فکر وخیال کو پابہ زنجیرکر دیا وہاں آئینہ خانہ ہستی سے زندگی نے کوچ کا نقارہ بجادیا۔

زندگی تو ایک میلہ ہے۔ اور میلہ دیکھنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ خرید و فروخت کرنے کے لیے۔ میلے میں تجارت کے لیے آنے والا، اس موقع پر مختلف طرح کے کھیلوں میں بہ طور کھلاڑی حصہ لینے والا یا کسی سرکس کے پروگرام میں اپنا کردار نبھانے کے لیے آنے والا، کبھی بھی میلے سے اس طرح حظ نہیں اٹھا سکتا جس طرح وہ شخص جس کا صرف اور صرف مطمح نظر میلہ دیکھنا اور اس سے محظوظ ہونا ہے۔ میلے سے صرف وہی لطف و انبساط کشید کر پاتا ہے جو صرف اور صرف میلے کو دیکھنے آتا ہے۔

میلہ دیکھنے والا میلے میں ہر شے کو تفکرات یا تعصبات کی عینک سے نہیں دیکھتا، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ میلے کی حقیقی روح (لطف وانبساط) سے محروم رہتا ہے۔ ایسا شخص مجنوں یا دیوانہ ہوتا ہے جو روا روی میں یا اپنی دیوانگی کی بے خبری میں میلے میں گھس آتا ہے۔ میلے کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر جو مزہ آتا ہے وہ میلے کی کہانی سن کر نہیں آتا۔ اکثرہمارے دیہاتوں کے لوگ جو کسی وجہ سے میلہ نہیں دیکھ پاتے تھے تو وہ میلہ دیکھنے والوں سے اس کی روداد ضرور سنتے تھے اور میلے کی روداد اتنی مسحور کن ہوتی کہ سننے والامخظوظ ہوتا۔ لیکن جو لطف میلہ دیکھنے والے نے اٹھایا ہوتا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ زندگی بھی میرے خیال میں ایک ایسا ہی میلہ ہے جس کی اصلیت وہی جانتا ہے جس نے اپنی آنکھ سے یہ میلہ دیکھا ہو۔ دوسروں کی زبان سے میلے کی روداد سن کر یہ دعوی کرنا کہ میں نے بھی میلہ دیکھا ہے، محض ایک مغالطہ ہے۔

امان اللہ محسن
Latest posts by امان اللہ محسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).